اگست 11, 2024

ديدہ باطن پہ راز نظم قدرت ہو عياں

گزشتہ نشست میں ہم نے حضرت آدمؑ کی تخلیق اور شیطان کے ساتھ ہماری ازلی دشمنی کی ابتداء کے حقائق کا جائزہ لیا۔ آج اس قصہ کو آگے بڑھانےسے پہلے آئیے تخلیق آدمؑ سے کچھ پہلے بلکہ بہت پہلے کے کچھ واقعات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اپنی اس تحقیق میں ہم شیخ الاکبر حضرت محی الدین ابن عربیؒ کی مشہور تصنیف "فصوص الحکم” سے استفادہ کرتے ہوئے کچھ حقائق کا جائزہ لیں گے جن کا ہم تمام انسانوں کی زندگیوں پر گہرا اثر ہے۔
ہمارے اس سفر کا آغاز ہوتا ہے تخلیق کائنات سے پہلے۔ ہماری یہ کائنات اور اس میں معلوم تمام مخلوق بشمول فرشتوں، جنت، جہنم اور ان میں اور ان کے اردگرد جو کچھ ہے اس سب کچھ کے، اللہ تعالیٰ کی مخلوقات کا ایک نہایت معمولی سا حصہ ہے۔ مخلوق میں کسی کی مجال نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور ربوبیت کی انتہاؤں کا اندازہ لگا سکے مگرصرف اتنا جو اللہ اپنے فضل سے کسی پر آشکار کردے اپنے رسولوں میں سے۔ ہمیں جو علم دیا گیا ہے اس کی انتہا بس اتنی ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کی ذات و صفات لا محدود ہیں۔ اللہ تعالٰی نے جب اس کائنات اور اس میں پائی جانے والی مخلوق کی پیدائش کا ارادہ کیا تو اس نے اپنی لامحدود صفات میں سے ننانوے صفات کو اس عالم کے لئے مخصوص فرمایا۔ یہی وہ صفات الٰہی ہیں جن کا ہمیں جزوی علم دیا گیا ہے کیونکہ اس عالم کے تمام معاملات انہی صفات سے متعلق ہیں۔ ان صفات الٰہی کی تجلیات ہی تمام مخلوق میں کارفرما ہیں بالکل ایسے جیسے بجلی کا کرنٹ آپ کے کمپیوٹر،آپ کے فریج، آپ کے فون، حتٰی کہ آپ کی گاڑی کے انجن تک میں کارفرما ہے۔ اس عالم میں کوئی بھی چیز جب بھی عمل پذیر ہوتی ہے وہ ان ننانوے صفات الٰہی میں سے کسی ایک صفت کے ماتحت ہی کارفرما ہوتی ہے۔ ماں بات اپنی اولاد پر شفقت کرتے ہیں تو اللہ تعالٰی کی صفت رحمانیت کی جلوہ نمائی ہوتی ہے، باپ اپنے اہل و عیال کے لے رزق فراہم کرتا ہے تو اس کے اس عمل میں اللہ تعالٰی کی شان رزاقی کی تجلی ہوتی ہے، قانون مجرم کو سزا دیتا ہے تو اس میں اللہ تعالیٰ کی شان عدل و قہاریت کا اظہار ہوتا ہے علٰی ہٰذا القیاس۔
یہاں ایک بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ مخلوق میں سے اللہ تعالٰی کی صفات ذاتی کی تجلیات کا ظہور ہوتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے ایک آئینہ سورج کی شعاؤں کو منعکس کرتا ہے ۔ سورج کی شعاؤں کو منعکس کرنے سے آئینہ میں سورج کی روشنی اور تپش کا انعکاس تو ہوتا ہے لیکن وہ اپنی ذات میں سورج نہیں بن جاتا ہے۔ اسی طرح تمام مخلوق میں سے اللہ تعالٰی کی صفات کی تجلیات کا اظہار و ظہور ہوتا ہے لیکن اس سے ہم ان تجلیات کے حامل و مالک نہیں بن جاتے۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے اور اسے سمجھنے میں نقص کی وجہ سے لوگ وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے مباحث میں اُلجھے وگرنہ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ ہمارے آپ کے سمجھنے کی بات صرف اتنی ہے کہ تمام عالم اللہ تعالٰی کی صفات کے ماتحت اور ان کی وجہ سے قائم ہے بالکل اسی طرح جیسے آپ کا کمپیوٹر یا فون جس پر آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں وہ بجلی کے کرنٹ کی وجہ سے قائم ہے۔ یہ بجلی کا کرنٹ مختلف چیزوں میں مختلف طرح سے ظاہر ہوتا ہے اور اس کی بناء پر مختلف اشیاء مختلف طریقے سے کام کرتی ہیں لیکن حقیقت میں ہر چیز اس بجلی کےکرنٹ ہی کی محتاج ہے۔ اس تمثیل میں اور صفات الٰہی کا مخلوق کے ساتھ جو تعلق ہے اس میں فرق یہ ہے کہ جو اشیاء ہم بناتے ہیں ان میں بجلی کا کرنٹ ذاتی طور پر موجود ہوتا ہے جبکہ اللہ تعالٰی کی مخلوق میں صفات الٰہی کا صرف انعکاس ہوتا ہے، صرف ایک reflectionہوتا ہے۔صفات الٰہی مخلوق کے اندر آموجود نہیں ہوتیں ہاں ان کا اثر مخلوق سے ظاہر ہوتا ہے جیسے اگر آئینہ کو سورج کی طرف کیا جائے تو اس میں سورج کی روشنی اور حرارت کا کچھ اثر آجاتا ہے لیکن سورج نہ سورج کی روشنی اور نہ اس کی حرارت میں اس سے کوئی کمی یا زیادتی درپیش ہوتی ہے۔ اسی طرح مخلوق میں صفات الٰہی کا صرف انعکاس ہوتا ہے، صفات الٰہی مخلوق سے بالکل جُدا اور کسی بھی کمی بیشی سے اس سے زیادہ پاک و منزہ رہتی ہیں جتنا سورج آئینہ میں اپنے انعکاس کی وجہ سے۔ اس سے زیادہ اس معاملہ کی کرید ہماری آج کی گفتگو کے احاطہ سے باہر ہے۔
اب جب ذات الٰہی نے آدمؑ اور اولاد آدمؑ کی تخلیق کا ارادہ کیا تو سب سے پہلے ہماری ارواح کو پیدا کیا۔ جب ہماری اروح کو پیدا کیا گیا تو اللہ تعالٰی کی جانب سے ہر روح کو ایک استعداد عطا کی گئی۔ یوں سمجھئے کہ ہر روح ایک صاف شفاف شیشے کا برتن تھی اور ہر برتن کی استعداد، اہلیت یا مقدار کا تعین ذات الٰہی کی طرف سے کر دیا گیا، کچھ کی استعداد آدھ لٹر کی تھی تو کچھ کی سو لٹر کی اور کچھ کی دس لاکھ لٹر کی۔ جب اللہ تعالٰی نے تمام ارواح کو پیدا فرما دیا اور ان کی استعداد کا تعین فرما دیا تو ان تمام ارواح کو تجلیات الٰہی پر پیش کیا اور انہیں اختیار دیا کہ ان صفات کی تجلیات میں سے جس صفت کی تجلی جس قدر چاہیں اپنی استعداد کے مطابق اپنے لئے پسند کرلیں۔ یوں سمجھئے کہ ہر صفت الٰہی کی تجلی کا ایک خاص رنگ ہے اور ان ارواح کو اختیار دیا گیا کہ اپنے صاف شفاف بے رنگ برتنوں کوصفات الٰہی کے ان رنگوں میں سے جس صفت سے جتنا چاہیں اُتنا رنگ لیں۔ اب ان تمام ارواح نے اپنی اپنی مرضی سے اپنے لئے صفات الٰہی کی تجلیات کا انتخاب کیا اور جس روح پاک نے تمام تجلیات الٰہی کو مکمل تناسب کے ساتھ اختیار کیا وہ روح محمدﷺ ہے۔ آپؐ کے سوا تمام ارواح نے صفات الٰہی کی تجلیات کے اختیار میں کسی نہ کسی کمی بیشی کا ارتکاب کیا ہے۔
یہ اسی انتخاب کا اثر ہے کہ ہر روح اپنی طبیعیت اور میلان میں کچھ نہ کچھ مختلف ہے۔ جس روح نے جس صفت کی طرف زیادہ توجہ کہ وہ صفت اتنی ہی شدت کے ساتھ اس روح میں منعکس ہوئی۔ جن ارواح نے صفت رحمانیت کی تجلی کو زیادہ اختیار کیا وہ روحیں بہت نرم دل ہوئیں اور جن روحوں نے صفت قہاریت کی طرف زیادہ رغبت کی وہ سخت مزاج ہوئیں۔ غرضیکہ ہمارے مزاجوں میں یکسانیت اور اختلاف ہمارے اسی انتخاب کا مظہر ہے۔ اور پھر شائد اس انتخاب کے بعد اللہ تعالٰی نے ارواح کو ان کے انتخاب کے حساب سے گروہوں میں بانٹ دیا۔ ایک جیسی روحوں کو ان جیسی دوسری ارواح کےساتھ اکٹھا رکھ دیا۔ بات سمجھ میں آنے والی بھی ہے۔ ایک جیسے انتخاب والی روحوں کے میلان ایک سے تھے سو انہیں ایک ساتھ اکٹھا رکھ دینا ان کے لئے فرحت کا باعث تھا۔ حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالٰی نے ارواح کو گروہوں، یا آج کی زبان میں batches میں رکھا۔ حدیث شریف کے الفاظ میں غور کیجئے کہ جو ارواح اس وقت آپس میں شناسا تھیں وہ اس دُنیا میں بھی ایک دوسرے سے مانوس ہوتی ہیں اور جو اس دور میں ایک دوسرے سے اجنبی تھیں وہ اس دُنیا میں بھی ایک دوسرے سے اجنبی ہوتی ہیں۔ اب آپ کو سمجھ آتی ہوگی کہ کچھ لوگ کس طرح آناً فاناً ہمارے دل کے قریب آجاتے ہیں اور کیسے کچھ لوگ تمام عمر گزارنے کے بعد بھی ہمارا اعتبار اور یقین حاصل نہیں کر پاتے۔
کند ہم جنس باہم جنس پرواز
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمارے وجود کا جزو اعظم و حقیقی ہماری روح ہے۔ جسم تو صرف ایک سواری ہے جو اس روح کو عطا ہوئی ہے۔ روح، جب سے اللہ تعالٰی نے اسے تخلیق کیا ہے اس وقت سے زندہ ہے اور اس وقت تک زندہ رہے گی جب تک اللہ کے سوا تمام مخلوق فنا نہیں کردی جاتی۔ ہاں اس سفر کے دوران اس روح کی سواری، یا لفظ پنجرہ یہاں شائد زیادہ مناسب ہو، تو وہ بدلتی رہتی ہے۔ ہماری دنیاوی زندگی کے دوران ہماری روح ہمارے جسم پر اثر انداز ہوتی ہے اور ہمارا جسم ہماری روح پر۔ کچھ معاملات میں ہمارا جسم ہماری روح کے میلان کی مطابقت کرتا ہے اور کچھ میں مخالفت اور ان دونوں کے آپس کے معاملات میں سُدھار کے لئے اللہ تعالٰی کی ہدایت و شریعت آئی۔
بات کو دوبارہ اپنے موضوع کی طرف پلٹاتے ہوئے ہم اس حقیقت کی طرف واپس آتے ہیں کہ تخلیق آدمؑ سے پہلے حضرت آدمؑ سمیت تمام اولاد آدمؑ کی ارواح نہ صرف پیدا کی جا چُکی تھیں بلکہ انہیں اپنی مرضی سے تجلیات صفات الٰہی میں اپنے آپ کو رنگنے کا اختیار بھی دیا جا چُکا تھا اور وہ اسے استعمال بھی کر چُکی تھیں۔ گویا تخلیق آدمؑ سے پہلے ہی ہمارے مزاج اور ہماری طبیعتوں کا تعین ہو چُکا تھا اور یہ تعین ہمارے اپنے اختیار سے ہوا تھا، اس معاملہ میں اللہ تعالٰی نے ہم پر کوئی جبر نہیں کیا تھا۔ اگر یہ سب ہمارے اختیار سے نہ ہوتا تو پھر ہم اپنے عمل میں اختیار سے معذور تھے اور پتھروں کی طرح ایک مجبور محض مخلوق ہوتے۔
اس بات کی وضاحت کے بعد اب انشاء اللہ ہم اگلی قسط سے دوبارہ اپنے سفر کا آغاز کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے