گزشتہ نشست میں ہم نے تخلیق آدمؑ سے پہلے کے چند مدارج کا ذکر کیا۔ اب جب آدمؑ کی تخلیق ہو چُکی تو انہیں جنت میں رکھا گیا اور اس جنت میں ان کا دل بہلانے کو انہیں ایک دلرُبا ساتھی عطا کیا گیا جس کی تخلیق انہی کے وجود میں سے کی گئی اوراس ساتھی کی تخلیق کا واحد مقصد آدمؑ کی تسکین تھا۔
هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍۢ وَٰحِدَةٍۢ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا ۖ (اعراف:189)
وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا نکالا تاکہ وہ اس سے تسکین حاصل کرے۔
سورہ روم میں اس بات کی طرف دو بارہ اشارہ ہوتا ہے
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (الروم:21)
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہارے میں سے ہی جوڑے بنائے تاکہ تم اُن سے تسکین حاصل کرو او تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی۔ بے شک اس میں غور کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔
اب اس تمام دوران تمام ذریت آدمؑ کی ارواح موجود تھیں اور ہر روح اپنے اپنے میلان کے مطابق صفات الٰہی میں سے اپنا حصہ چُن چُکی تھی۔ تخلیق آدمؑ و حوا کے بعد آدمؑ کو حکم ہوا کہ اپنی زوجہ کے ساتھ جنت ہی میں رہیں اور اس میں سے جہاں سے جی چاہیں جو چاہیں کھائیں ہاں البتہ ایک شجر مخصوصہ جو جنت سے نیچے کہیں ارذل جگہ پر تھا، اس کا پھل کھانے سے ان دونوں کو منع کیا گیا۔ جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے میں بہرحال ان دونوں پر کوئی قدغن نہیں تھی۔ یہاں یہ ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ یہ وہ جنت ہے کہ جس کی نعمتوں کا کوئی شمار اور حساب ہی نہیں ہے۔ سو اس جنت میں جس کی نعمتیں بے شمار و بے حساب ہیں، وہاں آدمؑ و حوا کو رہنے کا حکم ہوا اور ان تمام ان گنت نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی آزادی دی گئی۔ یہی نہیں بلکہ بارگاہ الٰہی سے ازراہ رحمت یہ بھی ارشاد ہوگیا کہ ابلیس سے خبردار رہنا کہ یہ تمہارا کھُلا دشمن ہے۔ ہم پہلے یہ بات واضح کر آئے ہیں کہ قرآن اس بات میں بالکل واضح ہے کہ یہ تمام احکام آدمؑ کو دیئے گئے کہ وہ اکیلے نیابت الٰہی سے متصف تھے۔ اماں حوا ان احکام کی پاسداری کی مکلف اتباع آدمؑ کی رو سے تھیں۔
اب جب آدمؑ جنت میں رہنے لگے تو اسی دوران کسی خاص وقت اللہ تعالٰی نے آدمؑ کی پُشت سے ان کی ذُریت کو اس طرح نکالا جیسے زمین میں ایک پودے سے دوسرا پودا نکلتا ہے۔ اس کی واضح ترین مثال گھاس کی ہے جس کی ایک جڑ سے یکے بعد دیگرے کئی پودے نکلتے ہیں۔ اسی طرح آدم کی پُشت سے اُن کے بیٹے بیٹیاں نکلے، اور اُن کے بیٹوں کی پُشت سے اُن کے بیٹے بیٹیاں حتی کہ اس زمین پر آنے والے آخری انسان تک کے اجسام کی تخلیق ہوئی اور اُن کی ارواح ان جسموں میں سرائت کر گئیں۔ جب یہ سب ہوچُکا اور آدمؑ و زوج و اولاد آدمؑ جنت میں رہنے لگے اور نجانے کب اور کتنا عرصہ بعد اللہ نے ایک وقت مخصوصہ پر آدمؑ و حوا اور تمام اولاد آدمؑ کو جمع و مخاطب کر کے پوچھا
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَٰذَا غَافِلِينَ (اعراف:172)
اور جب آپﷺ کے رب نے آدمؑ کے بیٹوں کی پُشت سے اُن کی اولاد کو پیدا کیا اور انہیں انہی پر گواہ بنا کر پوچھا، "کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟" سب بولے "بے شک، ہم گواہی دیتے ہیں" تاکہ تم روز قیامت یہ نہ کہہ سکو کہ ہم تو اس بات سے بے خبر تھے۔
اس عہد کے بعد آدمؑ، ان کی زوجہ اور ان کی اولاد جنت میں رہنے لگے۔ اس جنت میں جہاں ہر آسائش میسر تھی، جہاں کوئی روک ٹوک نہ تھی، کوئی قدغن نہ تھی۔ کوئی کسی کو دھوکا نہیں دیتا تھا، کوئی کسی سے زیادتی نہیں کرتا ہے، جہاں ہر ایک کو ہر چیز ہر وقت میسر تھی۔ جو جس کا جی چاہتا حاضر ہوجاتا، جو خواہش کرتا وہ پوری ہو جاتی۔ نہ کوئی آرزو تھی اور نہ کوئی حسرت۔ ہر کوئی حسین و جوان۔ جب چاہا، جیسی چاہی دلرُبا صورت بنا لی۔ عورتیں اس قدر خوبصورت کہ ہڈیوں کا گودا تک سو کپڑوں میں سے بھی دکھائی دے۔ ہر چشم آہو چشم، ہر سراپا دلنواز، ہر پیکر دلرُبا ، ہر ادا دلفریب۔ مرد اور عورت بے فکری سے خوش گپیاں کرتے، کھیلتے کودتے، کھاتے پیتے۔ جنسی تعلق، کسب معاش، کسی فکر، کسی پریشانی، کسی کمی کا تصور تک نہ تھا۔ زندگی انتہائی خوبصورتی کے ساتھ گُزر ہی تھی جہاں میں اور آپ، ہم سب بے فکر اور خوش تھے اور یہ سب کچھ ایک دو روز کی نہیں لاکھوں کروڑوں برس تک اسی طرح رہا۔
ایک طرف ہم یہ عرصہ خوشی اور شُکر میں گزار رہے تھے اور دوسری طرف ہماری یہ خوشی، یہ سرفرازی اور سرشاری ایک فرد کے دل میں کانٹے کی طرح چُبھ رہی تھی اور وہ تھا ہمارا ازلی دُشمن ابلیس۔ جس نے ہماری دشمنی میں اپنے رب کو چتاونی دی تھی کہ میں ثابت کردوں گا کہ ان میں سے اکثر نافرمان ہوں گے۔ نہ جانے اس عرصہ میں اس نے کتنے جتن بیلے، کتنے پاپڑ بیلے کہ کسی طرح ہمیں اس جنت سے، ان نعمتوں سے نکلوا پھینکے لیکن اس کا داؤ نہ چلا۔ ابلیس نے بہرحال ہمت نہ ہاری۔ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ تخلیق آدمؑ کے ابتدائی ادوار میں ابلیس اس بات سے واقف ہو چُکا تھا کہ انسان اپنی خواہشوں پر قابو پانے میں دقت محسوس کرے گا سو اس نے اسی ہتھیار کو استعمال کرنے کا تہیہ کیا۔ آدمؑ و حوا اور تمام ذریت آدمؑ اس وقت تک دھوکہ اور فریب سے ناواقف تھے۔ جنت میں ایسی کسی مکروہ چیز کا کام ہی کیا؟ ان کی اسی سادہ لوحی کو شیطان نے استعمال کیا۔ مختلف حیلوں سے، مختلف بہانوں سے اس نے آدمؑ و حوا کو پھسلانے کی کوشش کی۔ اس کا تمام زور اس بات پر تھا کہ کسی طرح انہیں شجر ممنوعہ کا پھل کھانے پر آمادہ کر لے۔ اللہ جانے کتنے جتن تھے جو ابلیس نے بیلے، کتنے بہانے تھے جو اُس نے بنائے۔ کیا کیا بہروپ تھا جو اُس نے دھارا کہ کسی طرح آدمؑ و حوا کو پھسلا دے۔ بالآخر اس ازلی دشمن نے ناصح کا روپ دھار کر ان دونوں کو کہا کہ تمہارے رب نے تمہیں اس درخت کا پھل کھانے سے اس لئے روکا ہے کہ تم کہیں فرشتہ نہ بن جاؤ اور کہیں تمہیں ہمیشہ کی زندگی نہ حاصل ہوجائے اور کہیں تم ہمیشہ کے لئے جنت میں نہ رہنے والے ہو جاؤ۔ انہیں یقین دلانے کے لئے وہ لعین اس پر قسمیں بھی کھا گیا کہ میں تمہارا ہمدرد و خیر خواہ ہوں۔
آدمؑ و حوا پہلے تو اس کے بہلاوے میں نہ آئے لیکن نجانے کتنے سال بیتے ہوں گے، کتنی کہکشائیں بن کے مٹ گئی ہوں گی جب آہستہ آہستہ برف پگھلنے لگی۔ ابلیس کی بات پر دونوں کو نہیں تو اماں حوا کو کچھ کچھ یقین آنے لگا۔ عورت ذات تھیں، ان پر ابلیس کا زور زیادہ چلا اور اپنی زوجہ، اور میرے نزدیک لفظ “محبوبہ” زیادہ مناسب ہے کہ رشتہ ازدواج کا تو اس وقت تک تصور بھی نہ تھا، کے زور دینے پر آدمؑ بھی اس جال میں پھنس گئے۔ یہ نہ سوچا کہ فرشتوں سے تو اللہ نے مجھے سجدہ کروایا تھا، انسان سے فرشتہ بن جانے میں میرے لئے خیر کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ بھی نہ سمجھے کہ اللہ کے براہ راست خبردار کرنے کے مقابلہ میں ابلیس کی قسموں کی کیا اوقات؟ بس ابلیس کی چکنی چُپڑی باتوں میں آکر اپنی محبوبہ کے اصرار پر جنت سے اُتر کر اس شجر ممنوعہ کا پھل چکھ بیٹھے۔
فَدَلاَّهُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْءَاتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ
پس وہ فریب کے ذریعے دونوں کو (درخت کا پھل کھانے تک) اتار لایا، سو جب دونوں نے درخت (کے پھل) کو چکھ لیا تو دونوں کی شرم گاہیں ان کے لئے ظاہر ہوگئیں اور دونوں اپنے (بدن کے) اوپر جنت کے پتے چپکانے لگے، تو ان کے رب نے انہیں ندا فرمائی کہ کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت (کے قریب جانے) سے روکا نہ تھا اور تم سے یہ (نہ) فرمایا تھا کہ بیشک شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے۔
اس آئت میں کیوں کہ یہ بات صراحت سے موجود ہے کہ شیطان انہیں درخت کا پھل کھانے کے لئے نیچے اُتار لایا اس لئے میں نے پیچھے یہ کہا کہ یہ درخت جنت میں نہیں بلکہ جنت سے ارذل کسی مقام پر تھا۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ قرآن میں اس بات کا ذکر کہیں صراحت سے نہیں ہے کہ آدمؑ نے اماں حوا کے اصرار پر یا ان کی تقلید میں شجر ممنوعہ کا پھل چکھا تھا، ہاں احادیث میں اس بات کا اشارہ ملتا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک حدیث نقل کرتا ہوں جس میں فرمایا:
لولا حواء لم تخن انثى زوجها الدهر (مسلم: 3647)
اگر حوا نہ ہوتیں (یعنی اگر حوا ایسا نہ کرتیں) تو کوئی بھی عورت اپنے خاوند سے کبھی خیانت نہ کرتی۔
میرا گمان یہ ہے کہ اماں حوا کی خیانت یہ تھی کہ انہوں نے شیطان کی بات سُنی اور پھر ان کے نازو انداز کے آگے بے بس ہو کر آدمؑ بھی حکم عدولی کر بیٹھے۔
اب جیسے ہی ان دونوں نے شجر ممنوعہ کا پھل کھایا ان کے بدن سے جنت کا لباس اُتر گیا اور ان پر ایکدوسرے کی شرمگاہیں ظاہر ہوگئیں۔ گویا اس شجر ممنوعہ کے کھانے سے انسان کی جنسی زندگی کی ابتداء ہوگئی ۔ ہماری نفسانی خواہشات میں سے سب سے مُنہ زور خواہش کا جن بوتل سے باہر آگیا۔ شیطان کا وار چل گیا اور پریشان و پشیمان آدمؑ و حوا کو معہ ان کی ذریت کے ارشاد ہوا “تم سب کے سب نکل جاؤ۔ اب جب تمہارے پاس ہماری طرف سے ہدایت آئے تو جو کوئی اس ہدایت کی پیروی کرے گا اس کے لئے کوئی خوف اور کوئی غم نہیں ہوگا۔ اور جو ہماری نشانیوں کو جانتے بوجھتے چھُپائے گا اور انہیں جھُٹلائے گا وہ لوگ ہمیشہ کے لئے آگ میں رہیں گے۔”
اس حکم کے ساتھ ہی آدمؑ و حوا اور شیطان کو تو آسمانوں سے زمین پر اُتار دیا گیا اور ہم سب ذُریت آدمؑ کو موت کی نیند سُلا دیا گیا۔ اسی حقیقت کی بابت سورۃ بقرۃ میں ارشاد ہوتا ہے۔
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (28البقرۃ:)
تم کیسے اللہ کا انکار کرتے ہو اور تم مردہ تھے پھر تمہیں زندہ کیا پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا اور پھر تُم اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
ہم اس سے پہلے انسان کی حیات اولٰی کے متعلق مفصلاً بحث کرآئے ہیں سو اس کا اعادہ نامناسب ہوگا۔ اس سلسلہ میں ایک دلچسپ حدیث جو کئی طرق سے صحیحیین میں آئی ہے اس کا حوالہ ناگزیر ہے۔
"آدمؑ و موسٰیؑ کے مابین بحث ہوئی تو موسیٰؑ نے کہا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ آپ آدمؑ ہیں جنہوں نے اپنی نسل کو جنت سے نکلوایا ۔ آدم علیہ السلام نے کہا کہ آپ موسیٰ ؑہیں جنہیں اللہ نے اپنے پیغام اور کلام کے لیے منتخب کیا اور پھر بھی آپ مجھے ایک ایسی بات کے لیے ملامت کرتے ہیں جو اللہ نے میری پیدائش سے پہلے ہی میری تقدیر میں لکھ دی تھی ۔ چنانچہ آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غالب آئے ۔"
اس حدیث کے الفاظ ہماری بات پر دلالت کرتے ہیں کہ شجر ممنوعہ کا پھل کھانے سے پہلے آدمؑ، و حوا اور اولاد آدمؑ سب جنت میں موجود و زندہ تھے۔
جب آدمؑ و حوا نے شجر ممنوعہ کا پھل کھا لیا تو پھر انہیں اور ان کی ذریت کو جنت سے نکل جانے کا حکم ہوا۔ اس زمین پر آنے کے بعد نسل آدمؑ کی حیات ثانی کے لئے سلسلہ تولید لازم قرار پایا کہ شجر ممنوعہ کا پھل کھانے کا اولین اثر شرمگاہوں کا ایکدوسرے پر ظاہر ہونا اور اس کی وجہ سے جنسی خواہش کا پیدا ہونا تھا۔ ایک اسی پر بس نہیں، اس زمین پر نہ جنت کی آسائشیں تھیں اور نہ راحتیں۔ ہر وقت بدلتا موسم، کبھی سر پرانگارے برساتا سورج تو کبھی یخ کردیتی سردی کی راتیں، کبھی گرج چمک کے ساتھ برستے بادل اور کبھی شدید قحط اور خشک سالی۔ ہماری شکلیں، ہماری جسم، ہمارا مال و دولت سب کچھ متغیر ہو گیا۔ کچھ کو مال ملا تو کچھ کی ابتداء مفلسی کی زندگی سے ہوئی۔ اس پر طُرہ یہ کہ موذی جانور اور بیماریاں اور سب سے بڑھ کر موت اور فاقہ کشی کے آسیب اب ہر وقت کا ساتھ تھے۔ ان سب مصیبتوں پر مستزاد یہ کہ شیطان، اُس کی ذُریت اور اس کے لشکروں کے لئے اب میدان بالکل صاف کہ ہمارے آگے پیچھے، دائیں بائیں، اوپر نیچے سے ہم پر حملہ آور ہوں۔ ان جگہوں سے جہاں سے وہ تو ہمیں دیکھتے ہیں لیکن ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔
یہ وہ حالات ہیں جن سے آدمؑ و حواؑ اور ان کی ذریت کی نیابت زمین کا دور عبارت ہے۔ خلاصہ اس حکم کا جو جانب الٰہی سے آدمؑ و حواؑ اور اولاد آدمؑ کے لئے نازل ہوا وہ یہ کہ
یہ تمہارے لئے بس ایک مخصوص اور محدود وقت کا ٹھکانہ ہے۔ پھر جو ہماری ہدایت پر چلے گا وہ واپس اپنے اصل مقام میں لوٹا دیا جائے گا۔ اور جو ہمارے احکام سے روگردانی کرے گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔