ہم اپنی گفتگو کے سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے اس مقام تک آ پہنچے ہیں جہاں ہمیں اپنی زندگی کے سب سے بنیادی سوال کا سامنا ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ اگر ہم سمیت یہ تمام جہان رنگ و بو کسی خالق کی تخلیق کا کرشمہ ہے تو اس خالق و مخلوق کے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لئے ہمیں اپنے خالق کو جاننا ہوگا ۔ اس بات پر تو تمام انسان متفق ہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی خالق کائنات کو نہ دیکھ سکتا ہے، نہ سُن سکتا ہے اور نہ چھُو سکتا ہے۔ وہ ماوارائے حواس و امکان ہستی ہے جس کے وجود کی کوئی حسی دلیل نہیں دی جا سکتی۔ ایسا ہونا کوئی اچنبھا بھی نہیں کہ ہم آج یہ جانتے ہیں کہ ہمارے ارداگرد پھیلی اس کائنات کا ۹۸ فی صد حصہ ایسے مادے اور ایسی تونائی پر مشتمل ہے جسے ہم دیکھ نہیں سکتے اور نہ ہی ماپ سکتے ہیں۔ سائنسدان انہیں ڈارک میٹر اور ڈارک اینرجی کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ ہمارے حواس اپنے تمام تر مددگار آلات کے تعاون کے باوجود ابھی تک معلوم کائنات کی حدود کا سُراغ لگانے سے قاصر ہیں۔ جب ہم نہ ابھی تک اپنے گرادگرد پھیلی کائنات کی وسعتوں کا اندازہ ہی لگا سکے ہیں اور نہ اس کے ۹۸ فیصد جزو کے بارے میں کچھ جانتے ہیں تو یہ گمان کہ ہم اپنے حواس کے بل پر اس خالق کو پا لیں گے جو اس کائنات کا ہی نہیں بلکہ اس جیسی نہ معلوم کتنی کائناتوں کا خالق ہے ماسوائے ایک بچے کی ضد کے کیا کہلائے گا؟
انسان کے نزدیک اپنے خالق کی معرفت کا واحد ذریعہ وہ علم اور حکمت ہے جو خالق کائنات خود اپنے بندوں کو ودیعت کرے۔ یہ وحی کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے اور علمی تجسس کی صورت میں بھی۔ ہر دو صورتوں میں انسان اس حقیقت کو اپنے ظرف کے مطابق ہی پاسکتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے کسی برتن میں صرف اتنی ہی چیز سما سکتی ہے جتنی اس میں گنجائش ہو۔ غور کرنے والوں کے لئے نشانیاں چہار سُو بکھری پڑی ہیں ۔دیدہ بینا ایک جنس نایاب ہے تو اس سے فائدہ اٹھانے والا دل بدقسمتی سے ہر ایک کو میسر نہیں۔ اس بات پر چونکئیے نہیں۔ ہم آپ ہر روز اپنی زندگی کے معاملات و معمولات میں کتنی چیزوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ کبھی ہم نے سوچا کہ ان سب کو ہم تک پہنچانے اور پہنچنے کے لئے کیا کیا مراحل ہیں جو طے کئے جاتے ہیں؟ یہ تمام مربوط نظام زندگی جسے سائنسدان صرف ”مدر نیچر“ کا نام دے کر جان چھُڑا لیتے ہین کیا اتنا بے ہنگم ہے کہ از خود ترتیب پا گیا؟ آپ اپنے ناشتے کی میز پر پڑی چیزوں کا ہی جائزہ لیجئے۔ ایک گلاس دودھ پر ہی غور کیجئے، اس زمین کے اندر موجود کتنی چیزوں نے مل کر اس بات کو ممکن کیا کہ آپ ایک گلاس دودھ پی سکیں؟ جو دودھ آپ نے پیا اس کی تخلیق کا عمل اگر سوچا جائے تو زمین کی تخلیق کے عمل کے ساتھ ہی شروع ہوا۔ وہ تمام معدنیات اور اجزاء جو دودھ کی تشکیل کرتے ہیں وہ زمین کی تخلیق کے عمل کے دوران ہی تو اس میں رکھے گئے۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ تخلیق کائنات کے چھ میں سے پہلے چار دن زمین میں ان تمام اسباب کو فراہم کرنے میں صرف ہوئے جو اس پر بسنے والی تمام حیات کے لئے لازم تھے۔
قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْدَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِلسَّائِلِينَ (فصلت: ۹-۱۰)
اب ایسا نہیں ہوا کہ ان تمام اجزاء نے خود بخود ہی دودھ کی شکل ڈھال لی ہو بلکہ ہر جزو کسی مخلوق کی خوراک کا حصہ بنا اور وہ مخلوق کسی اور مخلوق کی خوراک بنی اور یوں درجہ بدرجہ یہ تمام اجزاء اپنی ہیئت تبدیل کرتے ہوئے ہم تک پہنچے۔ پہلے زمین کی اندھیریوں میں گھاس کے ایک بیج نے اپنے اردگرد کی نمی کو جذب کر کے ایک کونپل کا روپ دھارا۔ پھر اس کونپل نے اس زمین میں موجود نامیاتی مادہ کو جو نجانے کس کس جاندار کے جسم کا حصہ رہا تھا اپنی غذا کے طور پر استعمال کیا۔ آسمان سے برسنے والے پانی کے بے شمار قطروں میں سے کچھ قطرے اس گھاس کی کونپل کے نشونما میں صرف ہوئے۔ پھر وہ گھاس کسی طرح اس گائے بھینس کے معدہ میں پہنچی جس کا دودھ آپ نے پیا لیکن ابھی ٹھہرئیے، گائے یا بھینس نے بھی تو ایک لمبا سفر طے کیا ہے۔
آج سے کئی برس پہلے اس جانور کے ماں باپ نے باہم اختلاط کیا جس سے ایک ایمبریو بنا۔ اس ایمبریو نے ایک مدت تک اپنی ماں کے شکم میں پرورش پائی۔ اس تمام عرصہ کے دوران نہ معلوم کون کون سا چارہ، کیسے کیسے مقوی مرکبات اس کی ماں کے معدہ سے جذب ہوکر خون کے ذریعہ اس جانور کی نشو نما کا سبب بنتے گئے۔ پھر جب اس جانور کی پیدائش ہوئی تو ایک عرصہ گزرا جس میں اس نے مختلف انواع کی خوراک کھا کر پرورش پائی۔ پھر ایک دن اس نے اپنے نر کے ساتھ ملاپ کیا تو بارآور ہوئی ۔ اب پھر وہی تمام عمل تخلیق و پیدائش دوبار دوہرایا گیا اور وقت معین پر جب اس کے یہاں بچہ پیدا ہوا تو اس کے خون اور گوبر کے درمیان سے یہ سفید دودھ نکلا جسے آپ نے نوش کیا۔ لیکن ابھی ٹھہرئیے کہ گائے کے تھنوں سے نکل کر آپ کے گلاس تک پہنچنے میں بھی تو کئی مراحل ہیں۔ پہلے گوالے نے دودھ نکالا۔ اب دودھ جس برتن میں نکالا وہ برتن بھی کسی نے بنایا۔ اس برتن کے بنانے میں جو اجزاء درکار تھے وہ بھی اسی زمین سے مہیا ہوئے اور زمین کی تخلیق کے وقت ہی اس میں رکھے گئے۔ پھر گوالا دودھ لے کر چلا آپ کی جانب اپنی سواری پر۔ اب اس سواری کی تخلیق کا بھی ایک پورا عمل ہے جس میں مختلف عوامل نے یکجا ہوکر اس کا وجود ممکن بنایا۔ اگر ہر جزو کی تخلیق کی تحقیق کی جائے اور اس پر غور کیا جائے تو ایک عرصہ درکار ہوگا اس سب کچھ کا احاطہ کرنے کے لئے۔ کئی برسوں پر پھیلے اس تمام عمل کا حاصل وہ ایک گلاس دودھ ہوا جو آپ نے شائد ایک منٹ سے بھی کم عرصہ میں نوش کر لیا۔ اب تصور کیجئے کہ دودھ کی تخلیق سے لیکر آپ تک اسے پہنچانے کا تمام عمل اتفاقی نہیں بلکہ عمداً تھا۔ ایک ایک ذرہ جو اس تمام عمل کی تخلیق میں استعما ل ہوا اس کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا گیا تھا۔ یہ لکھا گیا تھا کہ یہ ذرہ فلاں روز فلاں مخلوق کی خوراک بنے گا جو فلاں وقت فلاں مخلوق کی غذا بنے گی جو فلاں کے بدن کا حصہ بن کر ایک وقت معین میں ایک معین وسیلہ سے ایک مخصوص انسان کی خوراک بنے گا۔
ایک گہرا سانس لے کر ذرا غور کیجئے اس بات پر اور اس تمام عمل پر۔ سرسری نہیں، حقیقی غور۔ کس طرح آپ کی آج کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اس زمین میں موجود کتنی چیزیں کتنے برسوں سے مصروف عمل ہیں اور پھر یہ دیکھئے کہ آپ تو اس زمین پر بسنے والے سات ارب انسانوں میں سے صرف ایک انسان ہیں۔ آپ کے سوا سات ارب انسانوں کی بھی آپ جیسی ضروریات ہیں جو اسی طور پر پوری ہوتی ہیں ۔ پھر اس زمین پر ہم آپ سے بے انتہا زیادہ بے شمار اور مخلوق ہے جن میں سے ہر ایک کی ضرورت پوری کی جاتی ہے اور یہ سب کچھ ایک زبردست مربوط نظام میں گُندھا ہوا ہے جو ہزاروں لاکھوں برسوں سےبلا ناغہ اسی طرح چلا آرہا ہے۔ اس میں کبھی کوئی تعطل نہیں آیا، کبھی کوئی سٹرائیک نہیں ہوئی۔ ہر چیز اپنے معمول کے مطابق اس قدر خوبصورتی سے کام کر رہی ہے کہ ہماری آنکھیں اس خوبصورتی کو دیکھنے اور ہمارے دل اس کے وجود کا ادراک کرنے ہی سے قاصر ہو چُکے ہیں۔ خالق کی تخلیق اس قدر مکمل ،جامع اور محکم ہے کہ ہمیں اس کے کمال نے اندھا بہرا کردیا ہے۔ ہم انتہائی لاپرواہی کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ یہ سب ایسا ہی ہے اور ایسا ہی رہے گا یہ سوچنے کی زحمت کئے بغیر کہ یہ سب ایسا کیوں ہے اور اس بات کی کیا دلیل ہے کہ یہ سب ایسا ہی رہے گا؟ بھلا ہماری تخلیق کے پورے عمل میں کیا ہے جو ہمیشہ یکساں رہا ہے؟ اب ہم سمیت تمام انسانوں کی تخلیق بھی اللہ کا ایک ایسا کرشمہ ہے جس کی جہتوں اور گہرائیوں پر انسان دنگ رہنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا؟ خیال رہے یہاں بات پیدائش کی نہیں، تخلیق کی ہو رہی ہے۔ دونوں میں کیا فرق ہے؟ انشاءاللہ اس پر بات ہوگی اگلی نشست میں۔