اکتوبر 16, 2023

ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریبِ تمام

پچھلی نشست میں ہم نے ایک سطحی سا جائزہ لیا تھا کہ کس طرح اس زمین میں موجود عناصر و مخلوقات ہم انسانوں کی خدمت پر تخلیقِ زمین کے وقت ہی سے مصروف ہیں اور اللہ کی ربوبیت کس طرح ایک منظم، مربوط اور باقاعدہ حقیقت ہے۔ ہم نے گفتگو کا سلسلہ اس مقام پر چھوڑا تھا جہاں ہم حضرت انسان کی تخلیق پر غور کرنے لگے تھے۔ انسانوں کی اکثریت ہماری تخلیق کے صرف ایک مرحلہ سے واقف ہے یعنی یہ زندگی جو ہم جی رہےہیں۔ ہر شخص جانتا ہے اور مانتا ہے کہ ہم سب کی ابتداء ایک بوند پانی سے ہوئی جس نے رحم مادر میں قرار پکڑا اور پھر وقت مقرر پر ہم میں سے ہر ایک اسی طرح اس جہان میں آ موجود ہوا جیسے اکثر ممالیہ جاندار اس عالم رنگ و بو میں آتے ہیں۔ قرآن میں بھی بار بار اس عمل تخلیق اور اس میں کارفرما قدرت الٰہی کی طرف انسان کی توجہ دلائی گئی ہے۔

خُلِقَ مِن مَّآءٍۢ دَافِقٍۢ۝ يَخْرُجُ مِنۢ بَيْنِ ٱلصُّلْبِ وَٱلتَّرَآئِبِ۝   (الطارق:۶۔۷)
بنایا ایک اچھلتے ہوئے پانی سے۔ نکلتا ہے پیٹھ اور سینے کے درمیان سے۔

ایک اور جگہ یہی عمل انتہائی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا

ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍۢ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍۢ ثُمَّ مِن مُّضْغَةٍۢ مُّخَلَّقَةٍۢ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍۢ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ ۚ وَنُقِرُّ فِى ٱلْأَرْحَامِ مَا نَشَآءُ إِلَىٰٓ أَجَلٍۢ مُّسَمًّۭى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًۭا   (الحج:۵)
پھر نطفے سے  ، پھر خون کے لوتھڑے سے ، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی تاکہ تم پر حقیقت واضح  کریں۔ ہم جس کو چاہتے ہیں ایک وقتِ خاص تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں، پھر تم کو ایک بچے کی صُورت میں نکال لاتے ہیں۔

ان آیات کو آپ سرسری نہ لیں بلکہ غور کریں۔ ایک انسان  یا انسان کو چھوڑیں کسی بھی ایک جاندار کو دیکھ لیں، ایک بکری کو ہی دیکھ لیں۔ ان کی تخلیق بھی ایک نطفہ سے ہوتی ہے۔ پھر اس ایک خلیہ سے کسقدر ایک مکمل وجود تکمیل پاتا ہے جس میں کئی اعضاء ہیں اور ہر جزو کی اپنی ہیئت اور ترکیب ہے۔ دل کے پٹھوں کی ساخت کچھ اور ہے اور بازو کے پٹھے کچھ اور طرز کے۔ ہاتھ کی ہڈیاں کچھ اور طرح کی ہیں اور ران کی ہڈی کچھ اور طرز کی۔ جلد کے خلیے ایک جُدا ترکیب کے حامل ہیں اور آنکھ کے خلیے کچھ اور ہیئت کے۔ یہ سب کچھ اس ایک نطفہ سے وجود میں آتا ہے جو بذات خود کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ ہر چیز اپنے وقت مقرر پر ترتیب و ترکیب پاتی جاتی ہے۔ پھر ہمارے اندر ایک انتہائی پیچیدہ جال بچھا ہوا ہے شریانوں کا، انتڑیوں کا، نالیوں کا۔ یہ تمام پلمبنگ ایک نومولود میں نہ صرف مکمل ہوتی ہے بلکہ عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے اور  وہ بھی میلوں کے حساب سے ۔یہی حال ہڈیوں کا، کھال کا اور جسم کے باقی اعضاء کا ہے۔ ہم آج اپنی تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود کیا کوئی ایسی چیز بنا پائے ہیں جو اس طرح از خود نشو نما پائے؟

پھر تخلیق الٰہی کی کوئی ایک مثال نہیں، ہمارے ارداگرد پھیلی ہر چیز اس کی قدرت کا شاہکار ہے۔ ایک چیونٹی کو ہی دیکھ لیجئے۔ ایک معمولی سے خلیہ سے وجود پانے والا یہ حیوان اللہ کی قدرت کا ایک شاہکار ہے۔ اپنے جسم کے تناسب سے ہم انسانوں سے بڑا دماغ رکھنے والا یہ حشرہ انسانی لحاظ سے ایک مافوق الفطرت کرشمہ ہے۔ اپنے وزن کے کئی گنا زیادہ وزن اٹھانے والا یہ وجود سائنسی لحاط سے بھی نسبتاً بہت زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ ان کے گھروندے نہایت منظم اور فن تعمیر کا ایک شاہکار ہوتے ہیں۔ تصور کیجئے کہ اگر ان چیونٹیوں کی جسامت اللہ صرف ایک  چوہے جتنی کر دے تو ہم انسانوں کا اس زمین سے صفایا ہوجائے لیکن بنانے والے نے زمین کو ہمارے لئے اس طرح تیار کیا کہ اس میں موجود ہر چیز ہماری خدمت کے لئے حاضر رہے اور کوئی مخلوق انسان سے مقابلہ میں اس پر حاوی نہ ہو پائے۔ ظاہر بات ہے کہ اگر ایسا ہونا ممکن ہوتا تو زمین کی خلافت چہ معنی دارد؟

سو جب ہم بات تخلیق کی کرتے ہیں تو صرف انسان کا وجود اس کا ایک ضمیمہ ہے۔ اللہ کی تخلیق کا کرشمہ انسان کے وجود سے بہت بڑا اور بہت وسیع ہے جس کے ادراک کی کوشش کئے بغیر ہم اللہ کی ربوبیت کا گمان تک بھی نہیں کر سکتے۔ اب انسان کی یہ تخلیق اور اس زمین میں اس کی بقا و نشو نما کے اسباب کا وجود  اپنی جگہ ایک معجزہ اور قدرت الٰہی کا مظہر ہے لیکن بہرحال ان معاملات میں ہم ان تمام جمادات و حیوانات و نباتات کے شریک ہیں جو اس زمین پر بستے ہیں۔ وجود انسانی کی حقیقت اس زمینی زندگی سے ماورا ایک دلچسپ واقعہ ہے کہ ہم انسانوں کے لئے  یہ زندگی نہ نقطہ آغاز ہے اور نہ یہاں ہماری موت ہمارا آخر بلکہ ایک مکمل دور حیات ہمارے وجود کے سفر میں محض ایک  درمیانی منزل ہے۔ ایک انتہائی اہم لیکن درمیانی منزل کہ نہ یہاں کی زندگی ہماری زندگی ہے اور نہ یہاں کی موت ہماری موت ۔ آپ پوچھیں گے کہ  وہ کیسے؟   بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ اعتراف کہ اس سوچ کی ابتداء ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کی اس سوچ سے ہوئی جس کا ذکر انہوں نے سورۃ الملک کے تفصیلی درس کے حصہ اول میں کیا۔ تحریک اس سوچ کی قرآن کی یہ آیت بنی جس میں اہل جہنم  کی روز قیامت اپنے رب کے حضور فریاد ذکر کی گئی ہے

قَالُوا۟ رَبَّنَآ أَمَتَّنَا ٱثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا ٱثْنَتَيْنِ فَٱعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍۢ مِّن سَبِيلٍۢ۝   (غافر:۱۱)
کہیں گے رب ہمارے تونے ہمیں مارا دو دفعہ اور زندہ کیا دو دفعہ سو ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں پھر کیا یہاں سے نکلنے کی کوئی سبیل ہے؟

ضروریات دین میں سے یہ ایمان بھی ہے جسے ہم میں سے ہر انسان  جانتا ہے کہ ہمیں اس دنیا میں موت ایک بار بالضرور آنی ہے اور پھر ہمیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا بروز قیامت۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس دوسری دفعہ زندہ کئے جانے کے بعد موت نہیں بلکہ وہ زندگی حیات ابدی ہوگی۔ اب اس سب کچھ میں دو زندگیاں تو ہم گن سکتے ہیں، دو موتیں نہیں۔ پھر یہ بھی کہ یہ دونوں موتیں روز قیامت جی اُٹھنے سے پہلے کا واقعہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہم اس دنیا میں آنے سے پہلے بھی ایک زندگی جی آئے ہیں جس کے بعد ہمیں موت آئی۔ ڈاکٹر صاحب ؒنے تو اس کا ذکر شائد نہیں کیا لیکن قرآن میں اسی مضمون کو بالکل ابتداء میں یوں فرمایا گیا۔

كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِٱللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَٰتًۭا فَأَحْيَٰكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ۝   (البقرۃ:۲۸)
تم کیسے اللّٰہ کا انکار کرتے ہو اور تم مرے ہوئے تھے پھر تمہیں زندگی دی پھر تم مرو گے پھر زندہ کئے جاؤگے پھر تم اس کی طرف لوٹائے جاؤگے۔

غور کیجئے کہ یہاں بھی حیات دنیوی سے پہلے ایک موت کا ذکر ہے ۔ یہاں ایک نکتہ ذہن میں رکھئے کہ موت کے لئے ایک زندگی کا ہونا لازم ہے جس پر وہ وارد ہو۔ جو چیز ناموجود ہو وہ "مردہ” نہیں ہوتی۔ کسی کے مردہ ہونے کے لئے اس کا وجود لازم ہے اور جو ناموجود ہو اس کا مٹنا یا مرنا چہ معنی دارد؟ سو یہ موت جس کا یہاں ذکر کیا جارہا ہے وہ  بھی ہم پر   ایک زندگی  گزارنے کے بعد آئی تھی۔ اب وہ زندگی کیا تھی اور کہاں تھی؟ ڈاکٹر صاحبؒ نے اس کی توجیہہ یہ کی کہ یہ زندگی عالم ارواح میں تھی اور ایک وقت مقرر پر ہم سب کو وہاں موت آگئی۔ میرے ناقص خیال میں بات اس کہیں زیادہ گہری ، پیچیدہ اور دلچسپ ہے۔  جی تو چاہتا ہے کہ سلسلہ کلام کو جاری رکھوں لیکن   یہ اتنی دلچسپ حکایت ہے کہ اس پر ایک مضمون الگ سے ہونا چاہئے سو انشاءاللہ سلسلہ کلام کو یہیں سے دوبارہ جوڑیں گے۔

1 Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے