جون 23, 2024

کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوق عریانی

گزشتہ نشست میں ہم نے اس بات کی تحقیق شروع کی کہ آیا کوئی ایسی جگہ ہے جہاں کا موسم، وہاں کی آسائشیں اور وہاں پائی جانے والی نعمتیں ہمارے جسمانی اور نفسیاتی معیارات اور تقاضوں سے کما حقہُ ہم آہنگ ہیں۔ اپنی اس کھوج میں ہم نے آیات قرآنی اور احادیث نبویﷺ کی روشنی میں اپنے سفر کا آغاز کیا۔ آج ہم اپنے اسی سفر کو آگے بڑھاتے ہوئے انسان کے جسمانی، نفسیاتی اور معاشرتی تقاضوں کی کچھ مزید پرتوں کو کُریدتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو خواہشات ایک انسان کی نفسیات میں جبلی طور پر موجود ہیں ان کی جڑیں کہیں اس زندگی میں تو نہیں موجود جو ہم گُزار آئے ہیں؟

آج کی نشست کا آغاز ہم اس زمین پر موجود پانی اور اس سے ہمارے تعلق سے کرتے ہیں۔ آپ کے علم میں ہے کہ اس کرہ زمین کا تین چوتھائی حصہ پانی ہے لیکن یہ پانی ہم انسانوں کے استعمال کے بالکل بھی قابل نہیں۔ یہاں تک اگر ایک انسان بیچ سمندر تن تنہا ایک کشتی پر موجود ہو اور اسے کئی روز امداد نہ ملے تو اس کی موت کا سب سے قوی امکان پیاس سے ہے بہ نسبت اور کسی امکان کے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اس زمین پر جو چیز سب سے زیادہ وافر مقدار میں پائی جاتی ہے انسان اسے استعمال نہیں کرسکتا۔ صرف سمندر کے پانی پر ہی موقوف نہیں، ہم تو اکثر ندی نالوں اور جوہڑوں کا پانی بھی استعمال نہیں کرسکتے۔ ہمارے نازک معدوں کے لئے تو ایک خاص ترکیب اور خاص معیار کا پانی ہی موزوں ہے۔ اس زمین کے باقی جانداروں کے ساتھ یہ مسئلہ نہیں ہے۔ جو جاندار جس ماحول میں موجود ہے وہاں اسے یا تو پانی کی ضرورت ہی بہت کم ہے اور یا پھر جس قسم کا پانی وہاں اس ماحول میں موجود ہے وہ اس جاندار کی ضرورت کے لئے کافی ہے۔ وہیل سمندر میں رہتی ہے لیکن  سمندر کا پانی اس کے لئے بالکل اسی طرح زہر قاتل ہے جیسے ہم انسانوں کے لئے۔ لیکن ہم انسانوں کے برعکس وہیل کے بدن کو پانی کی ضرورت ہی نہیں اور وہ اپنی تمام عمر ایک گھونٹ تک پانی پئے بغیر گزار دیتی ہے۔ اسی طرح صحرا میں پائے جانے والے ہرن کی ایک قسم "سیبل اینٹیلوپ” تمام عمر پانی کا ایک گھونٹ تک پئے بغیر گزار دیتے ہیں۔ ان کے جسم کی ضرورت کے لئے شبنم کے وہ چند قطرے ہی کافی ہوتے ہیں جو صبح گھاس پر گرے ہوتے ہیں۔  اس سب کے برعکس ہم انسانوں کو ہر روز تقریباً ایک گیلن صاف پانی صرف پینے کے لئے چاہئے ہوتا ہے۔ درحقیقت ہوا کے بعد صاف پانی انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور پانی کے بغیر ہماری زندگی کی مدت کا تعین تین یا اس سے کچھ زائد دن ہے۔ آپ غور کر رہے ہیں کہ جو ہماری سب سے بڑی مادی ضرورت ہے اس کے زمین پر موجود ذخائر میں سے ایک کثیرت مقدار ہمارے استعمال کے قابل ہی نہیں۔ اس پر طُرہ یہ کہ ہمیں اس بات کا  ادراک فطری طورپر نہیں ہوتا بلکہ یہ اس شعور یا علم کا حصہ ہے جو ہم تک بعد نسل ہا نسل منتقل ہوا ہے۔ اگر ہمیں اپنی فطری جبلت پر چھوڑ دیا جائے تو ہم میں سے ایک کثیر تعداد سڑے ہوئے، گندے پانی کے ہاتھوں ہلاک ہو جائے۔

یہاں سوال یہ آن پیدا ہوتا ہے کہ انسان اگر اس زمین پر ارتقاء کے ذریعہ وجود میں آیا ہوتا تو ہمارے اجسام کو اس زمین پر موجود پانی کے معیار اور اس کی مقدار سے مناسبت ہونا چاہئے تھی۔ ہمیں یا تو وہیل یا اینٹیلوپ کی طرح پانی کی ضرورت ہی نہ ہوتی اور ہوتی تو بہت کم یا پھر ہمیں جہاں جیسا اور جتنا بھی پانی میسر ہوتا وہ ہمارے لئے کافی ہوتا۔ اس سے بڑھ کر یہ بات کہ اس زمین پر موجود پانی کے ساتھ ہماری مناسبت جبلی ہوتی، شعوری نہیں۔ اب اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری تخلیق اول اور ہماری حیات اولٰی کہیں اور تھی اور ہماری جبلت اس زندگی کی تابع ہے جو ہم گزار آئے ہیں تو وہ جگہ جو بھی ہے وہاں کا پانی ہر وقت اور ہر جگہ ہمارے استعمال کے معیار کے مطابق ہونا چاہئے۔ اس کا ذائقہ، اس کی خوشبو، اس کا درجہ حرارت سب کچھ ہماری جبلی پسند کے مطابق ہونا چاہئے۔ اب کیا کوئی ایسی جگہ ہے جہاں کا پانی قدرتی طور پر ہر آلائش سے پاک، نہایت خوش ذائقہ، اور شیریں ہے؟ آیئے اس معاملہ کی کھوج کے لئے اس حدیث پاک کی طرف رجوع کریں جس میں فرمایا اللہ کے پیارے رسولﷺ نے

جنت میں ایک سمندر ہے پانی کا، اور ایک سمندر ہے دودھ کا اور ایک سمندر ہے شہد کا اور ایک سمندر ہے شراب کا پھر ان میں سے دریا بہتے ہیں۔

اور یہ پانی، دودھ، شراب اور  شہد کیسے ہیں؟ اس کے متعلق آپ درج ذیل آیت مبارکہ پر غور کیجئے

مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ فِيهَا أَنْهَارٌ مِّن مَّاءٍ غَيْرِ آسِنٍ وَأَنْهَارٌ مِن لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ وَأَنْهَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشَّارِبِينَ وَأَنْهَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى وَلَهُمْ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ  (محمد:15)

جس جنّت کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے اس کی صفت یہ ہے کہ اس میں پانی کے دریا ہوں گے جس میں کبھی (بو یا رنگت کا) تغیّر نہ آئے گا، اور دودھ کے دریا ہوں گے جس کا ذائقہ اور مزہ کبھی نہ بدلے گا، اور  شراب کےدریا ہوں گے جو پینے والوں کے لئے سراسر لذّت ہے، اور خوب صاف کئے ہوئے شہد کے دریا اور ان کے لئے اس میں ہر قسم کے پھل ہوں گے اور ان کے رب کی جانب سے (ہر طرح کی) بخشائش ہوگی۔

غور کیا آپ نے کہ پانی کی خصوصیت ہی یہ بیان کی گئی ہے کہ اس میں کبھی بو یا رنگ کا تغیر نہیں آتا۔ گویا ہر جگہ ہر وقت صاف شفاف پانی میسر ہے جسے قابل استعمال بنانے کے لئے کسی تردد کی ضرورت نہیں۔  اور صرف پانی ہی نہیں بلکہ دودھ، شہد اور شراب بھی ہمہ وقت دستیاب اور ایسے کہ ان میں کسی آلائش یا خرابی کا امکان تک نہ ہوگا۔ ایک ایسی جگہ جہاں ہم جو چاہیں جہاں سے چاہیں پیئں کسی بھی خطرہ  اور پرواہ کے بغیر۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر دیکھئے کہ جنت میں ہم پانی پیتے تھے صرف مزہ لینے کے لئے۔ وہاں ہمیں پیاس لگتی ہی نہیں تھی سو پانی کا ہماری ضرورت ہونا ہمارے لئے ایک غیر مانوس بات تھی۔ اس حقیقت کو جاننے کے لئے مندرجہ ذیل آیہ مبارکہ پر توجہ کیجئے

إوَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَى (طٰحہ:119)
اس میں نہ تمہیں پیاس ستائے گی اور نہ دھوپ

ہم پہلے بحث کرآئے ہیں کہ ہمارے جسم اس دُنیا کی دھوپ کو برداشت کرنے کے لئے نہیں بنے۔ اس آیہ مبارکہ سےیہ حقیقت مزید واضح ہوجاتی ہے کہ ہماری تخلیق اصلی اور اولٰی ایک ایسی جگہ کے لئے تھی جہاں دھوپ کا گُزر ہی نہیں۔

اب آتے ہیں انسانی زندگی کے ایک اہم پہلو کی طرف۔ مرد اور عورت کے رشتہ اور اس کی نوعیت کے متعلق۔ سچ بات تو یہ ہے کہ مرد اور عورت کا رشتہ ایک ایسا  تعلق ہے جس کے متعلق شائد اس زمین پر انسانی زندگی کی ابتداء سے ہی سوچا، سُنا، لکھا اور سُنایا جاتا ہے اور یہ عقدہ آج بھی اس قدر لاینحل ہے جس قدر شائد آدم ؑاور حواؑ کے  ایام زندگی میں تھا۔ مرد اور عورت کی ترجیحات ، ان کا انداز فکر، ان کی خوشی، ان کے غم اور ان کی نوعیت میں اس قدر فرق اور فاصلہ ہے کہ ان کی سوچ اور افعال میں یکسانیت کی کوشش کرنا بھی ایک نامعقول سعی ہے جس کا انجام جلد یا بدیر ناکامی ہی کی صورت میں نکلتا ہے۔ عورت سراہا جانا پسند کرتی ہے۔ اسے اپنی خوبصورتی پر ناز ہے اور اپنی خوبصورتی کا اظہار اور اس کی تعریف سُننے کی خواہش اس کی بنیادی ترجیحات میں سے  ہے۔ اگر آپ کو اس بات میں کوئی شک ہے تو آج کے اس مصنوعی "برابری” کے دور کو ہی دیکھ لیں۔ جہاں عورت ہر بات میں مرد کی برابری کی دعویدار ہے لیکن جیسے ہی بات بننے سنورنے اور لباس کی آتی ہے وہ جھٹ سے نسوانیت کی علمبردار ہوجاتی ہے۔ کام پر جانے کے لباس کے معاملہ  کو ہی لے لیں جہاں  مرد اور عورت کی ترجیحات میں فرق صاف ظاہر ہے۔ جہاں مرد ہر روز وہی ایک جینز کی پینٹ اور شرٹ پہن کر کام پر جانے میں کوئی عار نہیں سمجھتا، اس کے ساتھ کام کرنے والی خواتین ہر روز اپنے آپ کو نئے لباس اور میک اپ کی دبیز تہہ سے مزین کر نے کے بعد ہی دفتر کا رُخ کرتی ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ دن میں کئی بار اس میک کو تازہ کیا جاتا ہے کہ دیکھنے والے کی آنکھ بد مزہ نہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ آخر کیوں؟ جب آپ کام پر جاتے ہیں تو آپ کا مطمع نظر صرف کام ہونا چاہئے۔ یہ بننا سنورنا اور اس پر اس قدر توجہ آخر کیوں؟

اسی پر بس نہیں۔ آپ اپنے اردگرد اشتہارات پر نظر دوڑائیں۔ سڑک کے کنارےلگے بلند و بالا بِل بورڈ سے لیکر آپ کے فون کی سکرین پر جگمگاتے اشتہارات میں آپ کو ہر طرف عورت ہی نظر آئے گی۔ اور تو اور مردوں کے شیو کے اشتہارات میں بھی عورت موجود ہوگی۔ ہمارے سعودی بھائیوں کو بھی اب جب "ترقی” کا بخار شدت کے ساتھ لاحق ہوا ہے تو انہوں نے امیگریشن کاونٹر پر اپنی خواتین کو بٹھا کر اپنا "نرم” چہرہ دُنیا کے سامنے دکھانا شروع کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ اس مادی ترقی اور بزعم خود برابری کے دور میں تو ہونا یہ چاہئے تھا کہ مرد اور عورت اس شدت کے ساتھ برابر ہوجاتے کہ مردوں کے لئے کسی عورت کا قریب ہونا نہ ہونے کے برابر ہوجاتا لیکن ہمارا مشاہدہ اس کے برعکس ہے۔ عورت جس قدر مادی زندگی میں مرد کے قریب ہوتی جارہی ہے، اسی قدر شدت کے ساتھ اس کی نمائش میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور اس کے نت نئے طریقے اختیار کئے جارہے ہیں۔ گزشتہ ایک صدی کے دوران جہاں عورت اور مرد کے قریب آنے کے مواقع میں اضافہ ہوا ہے وہیں عورت کا لباس بھی سُکڑ گیا ہے۔ جس لباس کو پہن کر سڑک پر آنے میں خواتین کو شکاگو میں گرفتار کیا جاتا تھا، آج اس سے کہیں کم لباس میں خواتین سڑکوں پر خرمستیاں کرتی پھرتی ہیں اور یہ سب کچھ عین جائز ہے۔ اغیار کو تو چھوڑیں، ہم مسلمانوں میں تیرہ سو برسوں سے جو پردہ رائج تھا اسے تقریباً کلیتاً ترک کر دیا گیا ہے اور حجاب کے نام پر  عیسائی راہباؤں کے پردہ کی جو شکل آج  مسلمانوں میں رائج ہے اس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں۔ اس پر طُرہ یہ کہ یہ "حجاب” حقیقت میں عیسائی راہباؤں کے پردہ سے بھی گیا گزرا ہے کہ جہاں ان کا لباس صرف سیاہ اور سفید رنگ کے کپڑوں پر مشتمل تھا، ہماری خواتین کے لباس اس طرح کی تمام قیود سے آزاد ہیں۔ گویا  ہمیں شرق و غرب کی عورت، بلا امتیاز رنگ و نسل،  خودنمائی کے جنون میں مبتلا نظر آتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ تمام دُنیا میں یہ چلن کیوں ہے کہ عورت کی "ترقی” کے لئے  پردہ زہر قاتل ہے؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر مرد کی برابری کی دعویدار عورت اپنے جسم اور ناز و انداز کو پرے رکھ کر مرد کے مقابلہ کے لئے میدان میں اُترے اور  اسے پچھاڑ دےاور ایسا کرنے کے لئے پردہ ایک اختیاری نہیں بلکہ ایک ضروری عمل ہوگا لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے والی خواتین میں درجہ بدرجہ پردہ تو درکنا اپنے ستر کی حفاظت کا بھی اہتمام کم سے کم ہوتا جاتا ہے۔ بُرا مت مانئے گا لیکن نت نئے فیشن اور ڈیزائن کے کپڑے پہن کر مرد کے سامنے آنا بھی اپنے آپ کی نمائش ہی تو ہے وگرنہ دُنیا کے مردوں کی اکثریت سیاہ، سُرمئی، اور سفید رنگ کے  سپاٹ کپڑوں میں  ملبوس وہی کام سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ  ہر عورت چاہتی ہے کہ اسے سراہا جائے اور اس مقصد کے حصول کے لئے  وہ نئے نئے روپ دھارتی ہے کہ مرد اس کی طرف متوجہ ہو؟ جہاں عورتوں کے میک اپ اور خوشبوؤں کی صنعت کا حجم 485 ارب ڈالر سالانہ اور ان کے کپڑوں کی صنعت کا حجم 936 ارب ڈالر سالانہ ہے وہاں مردوں  میں یہ شرح بالترتیب 202 ارب ڈالر اور 603 ارب ڈالر سالانہ ہے جب کہ آج بھی دُنیا میں کماکر لانے والوں میں مردوں کی اکثریت ہے۔  صاف ظاہر ہے کہ عورتوں میں اپنے بناؤ سنگھار کی خواہش اور حِس مردوں کی نسبت زیادہ ہے۔ پھر اسی پر بس نہیں بلکہ ہر عورت اپنے جسم کی نمائش اور تعریف کسی نہ کسی انداز میں چاہتی ہے۔ پرفیکٹ فگر برقرار رکھنا اور پھر اپنی بدن کے ہر انگ کی نمائش کرنا مشرق اور مغرب کی عورت کا مقصود بن چُکا ہے۔ کہیں یہ مقصد کپڑے اُتار کر حاصل کیا جاتا ہے اور کہیں اس کے حصول کے لئے چُست اور رنگ رنگ کے لباس پہن کر حاصل کیا جاتا ہے۔ آپ غور کیجئے کہ بُرقع آج کے عورت کے لئے ایک گالی اسی لئے ہے کہ اس کے پہننے کے بعد اس کے لئے اپنے جسم کی نمائش ناممکن ہو جاتی ہے۔

اس سے بات آگے بڑھاتے ہیں تو ہم جانتے ہیں کہ عمومی طور پر ہرعورت  کسی مرد کا قرب چاہتی ہے، وہ یہ چاہتی ہے کہ اس کا مرد انتہائی شدت کے ساتھ اس کی طرف مائل ہو، وہ اس سے پیار کرے، اس کی باتیں سُنے اور گھنٹوں کے حساب سے سُنے ، اس کی تعریف کرے، اس کے ناز دیکھے اور انہیں سراہے۔ بہ الفاظ دیگر ہر عورت کو محبوبہ بن کر رہنا  پسند ہے۔  یہ خواہش اس قدر شدید ہے کہ عورت بیوی بننے کے بعد بھی محبوبہ بن کر رہنا چاہتی ہے۔ وہ مارے پڑے عمل تولید میں حصہ تو لیتی ہے لیکن یہ بھی عمومی طور پر اس کے لئے اپنے مرد کی توجہ حاصل کرنے کا ایک ہتھیار ہے۔ آخر ایسا کیوں  ہے کہ آج کی "خودمختار” عورت اولاد کی بجائے کتوں بلیوں کو پال کر خوش ہو لیتی ہے؟ اس  کا جی چاہتا ہے کہ ان کے اور ان کے مرد کے تعلقات کے درمیان باقی ہر چیز اپنی انتہائی شدت کے ساتھ موجود ہو لیکن جسمانی اختلاط اس تعلق میں سے کسی طرح غائب ہوجائے۔ آپ نے خواتین کے لکھے ہوئے افسانوں میں "پاکیزہ محبت” کی مثال کئی بار پڑھی ہوگی۔ عورت فطری طور پر ایک ایسی محبت چاہتی ہے جو انتہائی شدید ہو لیکن  جنسی تعلق سے پاک ہو۔ مرد و عورت کے تعلق کی اس جہت سے عورت اس قدر گریزاں  کیوں  ہے؟  

اس سے بھی آگے بڑھ کر دیکھئے کہ ہر عورت اپنے خاوند سے پیار کرنا چاہتی ہے، اور بے شمار کرنا چاہتی ہے لیکن عمومی طور پر سُسرالی رشتہ داروں کی موجودگی اُسے پسند نہیں ہوتی۔ اکثر عورتوں کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کا "اپنا” ایک الگ گھر ہو جہاں کسی اور کی مداخلت یا آمد و رفت نہ ہو۔ یہ ایک عمومی رویہ ہے جو مشرق و مغرب کی عورت میں یکساں ہے۔

اس کے برعکس  مرد کو لیجئے۔ انہیں عورت سے زیادہ اس زمین پر کوئی چیز نہیں لبھاتی لیکن اس فطری کشش کے باوجود مرد کی عورت سے اولین اور شدید ترین خواہش اولاد پیدا کرنا اور اس کی پرورش کرنا ہوتی ہے۔ اس کی شدید جنسی خواہش کی اصل وجہ اس کی  اولاد کی "بھوک” ہے۔ مرد اپنی فطرت میں ہمیشہ اولاد پیدا کرنے کے لئے تیار رہے گا اور اسی وجہ سے مرد  ہمیشہ ایک خوبصورت عورت پر ایک "زرخیز” عورت کو ترجیح دے گا۔  اس کے برعکس عورت کو ہمیشہ اپنے حُسن ،اپنی جوانی اور  اپنی کشش پر ناز ہوتا ہے اور وہ اسے برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔  اولاد کی پیدائش عمومی طور پر عورت کے فطری حُسن میں کمی کا باعث ہوتی ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ اکثر خواتین کثیر الاولاد ہونا پسند نہیں کرتیں۔ کیسی عجب بات ہے کہ  مرد اور عورت  دونوں ایک دوسرے کا جزو لاینفک ہیں اور دونوں کا ساتھ اس دنیا میں افزائش نسل کے لئے ہے لیکن دونوں کی ترجیحات میں اس قدر فرق ہے۔ جانور بھی ہماری طرح افزائش نسل کے لئے اپنے زوج کے محتاج ہیں لیکن ان کا "معاشرتی” نظام اس لحاظ سے ہم انسانوں سے بہت بہتر ہے۔ مادہ صرف ایک خاص وقت میں جنسی ملاپ کے لئے تیار ہوتی ہے اور اس دوران اس کی تمام تر توجہ حاملہ ہونے پر ہوتی ہے۔ جیسے ہی وہ حاملہ ہوتی ہے وہ اور اس کا نر اپنی اپنی راہ لیتے ہیں۔ نہ وہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کی گھنٹوں باتیں سُنی جائیں، نہ یہ کہ مستقل بنیادوں پر اس کے ناز نخرے اٹھائے جائیں۔ بچہ پیدا کیا، اسے بڑا کیا اور پھر سے ایک نئے جوڑے کی تلاش۔ یہ عمل ان کی زندگیوں میں کئی بار دُہرایا جاتا ہے۔ ہم انسان اس کے برعکس اپنے زوج میں دوام کی خواہش کرتے ہیں۔  گھریلو زندگی کے معاملہ میں بھی عورت کے برعکس مرد کو اپنے ماں ، باپ، بہن بھائی کے ساتھ مل جُل کر رہنا پسند ہے۔ جہاں عورت کی خواہش ایک ایسے گھر کی ہوتی ہے جہاں وہ اور اس کا خاوند اکیلے ہوں وہیں مرد چاہتا ہے کہ اس کے اردگر ہمہ وقت اس کے بھائی بہنوں، بیٹے بیٹیوں کا میلہ لگا رہے۔  ان دونوں کی خواہشات میں اس قدر فرق کیوں ہے؟  

کیااس کا سبب یہ ہے کہ ہم کسی ایسے دور میں زندہ رہے ہیں جہاں مرد اور عورت کا تعلق محض "رفاقت” کے لئے تھا ، جہاں مرد اور عورت  کے لئے ایک دوسرے میں کشش تو تھی، جنسی لذت نہیں تھی ؟ جہاں عورت بنتی سنورتی تھی اور جہاں اس کے جسم کی نمائش ایک غیر اختیاری عمل تھا یوں کہ اُس کا حُسن اس کے لباس سے باہر چھلک چھلک پڑتا تھا۔ ایک ایسی دُنیا جہاں  اس کی طرف متوجہ ہوا جاتا تھا، اس کی تحسین کی جاتی تھی،  اس سے بے شمار باتیں کی جاتی تھیں، اس کے ساتھ کھایا پیا، گھوما پھرا جاتا تھا لیکن وصل تام  اور جنسی لذت کا تقاضا نہیں کیا جاتا تھا۔جہاں مرد کے لئے عورت ایک خوبصورت اور دلنواز ساتھی تھی لیکن اولاد کے حصول کا ذریعہ نہ تھی ۔ جہاں مرد کو کثیر الاولاد ہونا پسند تھا لیکن  اپنی اولاد کی خواہش پورا کرنے کے لئے اور اپنی اولاد کو پروان چڑھانے کے لئے اسے عورت کی احتیاج نہ تھی۔وہ آزاد تھا کہ اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ بھی گھومے پھرے، خوش گپیاں کرے اور اپنی رفیقہ کے حُسن کی تعریف و توصیف بھی کرے۔ اس کے ساتھ گھنٹوں، پہروں گُزارے لیکن کسی بھی قسم کے جسمانی تعلق کی خواہش کے بغیر ۔ کیا ایسا کوئی دور، ایسی کوئی زندگی ممکن ہے جہاں یہ سب کچھ ایسا رہا ہو؟

سب سے پہلے تو اس حقیقت پر نظر ڈالئے کہ عورت کی بنیادی اور جبلی خوہش سراہا جانا اور چاہا جانا ہے۔ دو لفظ تعریف کے، چند بول پیار کے ایک عورت کی اولین اور شدید ترین خواہش ہیں۔  آخرایسا کیوں؟  اس سوال کے حل کے لئے میں آپ کی توجہ ذیل کی آیت کی طرف دلاتا ہوں۔

هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍۢ وَٰحِدَةٍۢ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا   (اعراف: 189)

وہی ہے جس نے تمہیں بنایا ایک جان سے اور اس میں سے اس کا جوڑا بنایا کہ وہ اس سے تسکین حاصل کرے۔

اس آیہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے عورت کی تخلیق کا مقصد بیان کردیا ہے ۔ غور کیجئے کہ جب تخلیق آدم کی بات کی گئی تو فرمایا کہ اسے بناؤں گا کہ زمین پر میرا خلیفہ ہو لیکن جب تخلیق زن کی بات آئی تو فرمایا کہ  اسے تخلیق ہی آدم کی تسکین کے لئے کیا ہے۔ اب آپ ان تمام جبلی رویوں پر نظر ڈالئے جن کا ہم اوپر ذکر کر آئے تو آپ کو خواتین کی اداؤں میں، ان کی دلربائی میں، ان کے ناز و انداز میں اسی مقصد تخلیق اور حیات کی تکمیل کا لاشعوری جذبہ دکھائی دے گا۔  آپ یقیناً یہ ماننے پر مجبور ہوجائیں گے کہ عورت  کے انداز دلربائی میں ان کے مقصد حیات کی تکمیل کا جذبہ لاشعوری طور پر موجود ہے۔

اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر خوبصورت بننے اور دکھنے کی اس خواہش میں نسوانی حُسن کے معیارات  پر غور کیجئے۔ جہاں شرق و غرب میں یہ معیارات یکساں طور پر معروف ہیں وہیں عام مشاہدہ ہے کہ ان سب معیاروں کا کسی ایک انسان کے وجود میں پایا جانا تقریباً  ناممکن ہے ۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ معیار اس دُنیا کے نہیں ہیں لیکن پھر بھی ہر کوئی اس طرح کا بننے اور دکھنے کے جنون میں مبتلا ہے۔ ۔  ان معیارات کی بات کریں تو ہر فرد کا  مشاہدہ ہے کہ خواتین اپنے جسمانی حُسن میں عموماً ان باتوں کی متمنی ہوتی ہیں۔

1۔ صاف رنگت

2۔ بڑی خوبصورت آنکھیں

3۔ کم سن عمر جو کبھی نہ ڈھلے

4۔ متناسب، خوبصورت جسم

5۔ لباس جو ان کے حُسن کو چار چاند لگائے

6۔ دلپسند خوشبو اور دلربا انداز گفتگو جو مخاطب کے دل میں اُتر جائے

7۔ ان سب پر مزید ایک بے فکری کی زندگی جہاں  ساتھی اور ہم جولیاں ہوں جن کے ساتھ گھنٹوں اور پہروں گپ لگائی جائے۔ کھایا جائے، پیا جائے، گھوما جائے، گایا جائے کھیلا جائے، ہر قسم کی فکر اور پریشانی سے آزاد۔ ایک ایسی زندگی جہاں کسی بھی قسم کی ذمہ داری کا تصور تک بھی نہ ہو۔

اب اگرچہ ان تمام معیارات اور خواہشات  کا اس دُنیا میں کسی ایک فرد کے پاس ہونا ناممکن ہے لیکن  بہرحال ایسی زندگی کی خواہش  پوری شدت کے ساتھ ہر ایک خاتون کے دل میں جبلی طور پر موجود ہے۔ آخر کیوں؟ کیا کوئی زندگی انہوں نے ایسی گُزاری ہے جہاں یہ سب کچھ اسی طرح موجود تھا؟

ان حقائق کی اصل کی کھوج میں جب ہم قرآن پاک کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم پڑھتے ہیں کہ

كَذَلِكَ وَزَوَّجْنَاهُم بِحُورٍ عِينٍ (الدخان:54)

ایسا ہی ہوگا اور ہم انہیں صاف رنگت اور بڑی آنکھوں والیوں سے بیاہ دیں گے۔
مُتَّكِئِينَ عَلَى سُرُرٍ مَّصْفُوفَةٍ وَزَوَّجْنَاهُم بِحُورٍ عِينٍ (الطور:20)
تکیہ لگائے تختوں پر بیٹھے ہوں گے اور ہم گوری رنگت اور بڑی آنکھوں والی بیویوں کو ان کی زوجیت میں دے دیں گے۔
كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ۝  (الرحمٰن: 58)
(خوبصورت ایسی) گویا کہ وہ یاقوت اور مرجان ہیں۔
حُورٌ مَّقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ۝ (الرحمٰن: 72)
صاف رنگت والیاں جو خیموں میں پردہ نشین ہیں۔
وَحُورٌ عِينٌ ۝ كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ۝ (الواقعہ:22- - 23)
اور بڑی آنکھوں والی گوری رنگت والی عورتیں جو ایسی ہیں جیسے چھُپائے ہوئے موتی۔
إِنَّا أَنشَأْنَاهُنَّ إِنشَاءً ۝ فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا۝ عُرُبًا أَتْرَابًا۝  (الواقعہ: 35 -  37)
ہم نے انہیں ایک خاص خِلقت پر پیدا فرمایا ہے۔ پھر انہیں کنواریاں بنایا، ایک عمر کی، محبت کرنے والیاں۔
وَكَوَاعِبَ أَتْرَابًا۝  (النباء:33)
اور جواں سال بھرے سینوں والیاں۔

آپ ان آیات کے الفاظ میں آج ہی نہیں بلکہ ہر دور کی عورت کے معیار حُسن کی تعریف دیکھ سکتے ہیں ۔ صاف رنگت، بڑی آنکھیں، جواں عمر، خوشنما جسم ، ایسی جیسی ہیرے اور موتی اور موتی بھی عام نہیں بلکہ اتنے خوبصورت اور بیش قیمت کہ جنہیں چھُپا کر رکھا جائے۔ پھر کنواریاں یعنی جسمانی تعلق سے ناواقف۔اب جہاں قرآن پاک میں جنت کی عورتوں کی یہ تعریف آئی وہیں جنت کی عورتوں کی تعریف میں  چند احادیث بھی ملاحظہ فرمائیے۔

فرمایا اللہ کے پیارے رسولﷺ نے

 ہر جنتی کی زوجیت میں دو جنتی عورتیں دی جائیں گی، ان میں سے ہر ایک نے ستر ،ستر تہوں والا لباس پہنا ہوگا اور ان کی پشت کی طرف سے ان کی  پنڈلیوں کا گودا نظر آتا ہوگا۔

آپ نے غور کیا، ان کا جسمانی حُسن ایسا ہوگا کہ لباس بھی اسے چھُپانے سے قاصر ہوگا۔

ایک اور جگہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا 

جنت کی عورتیں گاتی ہیں "ہم ہمیشہ رہنے والیاں ہیں، ہم مریں گی نہیں، ہم خوشی اور آسائش میں رہتی ہیں، ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں، ہم خوش مزاج ہیں، ہم غصہ نہیں کرتیں، سلام ہو ان پر جن کے لئے ہم ہیں اور جو ہمارے لئے ہیں"۔

ان آیات قرآنی اور احادیث کے مطالعہ سے آپ کو کچھ اندازہ ہوا کہ  خواتین کے لاشعور میں چھپے معیارات اور احساسات کی ابتداء اور اصل کیا ہے؟  ایک بے فکری کی زندگی، جہاں آپ ہمیشہ جواں سال رہیں،ہر قسم کے جسمانی حُسن کی مالک اور ہر عیب سے پاک، جہاں اولاد کے جننے کا تصور تک موجود نہیں۔ جہاں آپ کا جسمانی حُسن آپ کے لباس کی تہوں میں سے بھی جھلکتا ہوگا اور جہاں آپ کا شریک حیات آپ کی زُلف گرہ گیر کا اسیر ہوگا۔ نہ اس تعلق میں کوئی ساس ہوگی، نہ کوئی سُسر، نہ کوئی اور عزیز رشتہ دار۔ جب آپ کا ساتھی آپ کے ساتھ ہوگا تو  صرف آپ ہی کا ہوگا۔ نہ اسے کہیں کام پر جانا ہے اور نہ کسی کو اُس سے کوئی کام ہوگا۔ آپ دونوں کا جتنا جی چاہے گا آپ ایک دوسرے کے قُرب سے لُطف اندوز ہوں گے، کسی بھی قسم کی مداخلت کے شائبہ سے بھی دور۔

  اب آتے ہیں اس پہیلی کے آخری نکتہ کی طرف، تعلق مرد و زن کی جسمانی جہت کی طرف۔ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ حیات اخروی اور ابدی میں مرد و زن کے رشتہ میں جنسی تعلق موجود ہوگا لیکن کیا یہ تعلق ہماری حیات اولین میں بھی تھا؟ اس سوال کی تلاش کے لئے قرآن پاک کی چند آیات کا مطالعہ مفید ہوگا۔

سب سے پہلے تو جنت ہی کی تعریف کے بارے میں یہ فرمان الٰہی دیکھئے جو حضرت آدمؑ کو فرمایا جارہا ہے

إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَى  (طٰحہ:118)
اس میں نہ تمہیں بھوک لگے گی اور نہ تم برہنہ ہوگے۔
فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِن سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ إِلاَّ أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ۝  (اعراف:20)
پھر یہ ہوا کہ شیطان نے اُن دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا، تاکہ اُن کی شرم کی جگہیں جو اُن سے چھپائی گئی تھیں ، ایک دوسرے کے سامنے کھول دے۔ کہنے لگا کہ : ’’ تمہارے پروردگار نے تمہیں اس درخت سے کسی اوروجہ سے نہیں ، بلکہ صرف اس وجہ سے روکا تھا کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ، یا تمہیں ہمیشہ کی زندگی نہ حاصل ہوجائے۔"
فَدَلاَّهُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْءَاتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ   (اعراف: 22)
پس وہ فریب کے ذریعے دونوں کو (درخت کا پھل کھانے تک) اتار لایا، سو جب دونوں نے درخت (کے پھل) کو چکھ لیا تو دونوں کی شرم گاہیں ان کے لئے ظاہر ہوگئیں اور دونوں اپنے (بدن کے) اوپر جنت کے پتے چپکانے لگے۔
يَا بَنِي آدَمَ لاَ يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَـنْـزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْءَاتِهِمَا إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لاَ تَرَوْنَهُمْ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ۝ (اعراف: 27)
 اے اولادِ آدم! (کہیں) تمہیں شیطان فتنہ میں نہ ڈال دے جس طرح اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکال دیا، ان سے ان کا لباس اتروا دیا تاکہ انہیں ان کی شرم گاہیں دکھا دے۔ بیشک وہ (خود) اور اس کا قبیلہ تمہیں (ایسی ایسی جگہوں سے) دیکھتا (رہتا) ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ بیشک ہم نے شیطانوں کو ایسے لوگوں کا دوست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں رکھتے

ان آیات کریمہ کے مطالعہ سے آپ پر یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ شجر ممنوعہ کا پھل کھانے سے پہلے حضرت آدمؑ اور اماں حواؑ نے ایک دوسرے کی شرم گاہوں کو کبھی دیکھا تک نہ تھا بلکہ سورۃ اعراف کی آیت 27 میں تو واضح آگیا کہ شیطان نے یہ سب چال چلی ہی اسی لئے تھی کہ انہیں ایک دوسرے کی شرم کی جگہیں دکھا دے۔ ظاہر بات ہے کہ جب آدم و حوا بشمول تمام انسانوں کے ایک دوسرے کی شرم کی جگہوں سے بے خبر تھے تو جنسی تعلق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم یہ پہلے ہی جانتے ہیں کہ جنت میں کسی کو بول و براز کی حاجت ہی نہیں ہوتی سو کوئی موقع اور محل تھا ہی نہیں بے پردگی گا۔ پھر قرآن یہ بات بھی واضح بیان کرتا ہے کہ پھل بھی صرف حضرت آدمؑ اور اماں حواؑ نے کھایا اور شرم کی جگہیں بھی صرف ان دونوں کی ایکدوسرے پر ظاہر ہوئیں۔ بنی آدم کُل کی کُل نہ اس فعل میں شریک تھی اور نہ ہی ان سے ان کے لباس لے لئے گئے تھے۔ اس لئے جنسی تعلق ہمارے لئے ایک اجنبی تصور ہے۔ مردوں میں اس کی حِس اور خواہش اس لئے موجود ہے کہ اللہ نے ہماری تخلیق اولٰی میں اولاد کا رشتہ باپ سے جوڑا تھا۔ غور کیجئے اس آیہ مبارکہ پر

وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ  (اعراف:172)
اور جب اللہ نے آدم کے بیٹوں کی پُشت میں سے ان کی اولاد کو پیدا کیا

یہاں صاف بتایا جارہا ہے کہ اولاد آدمؑ، آدمؑ کے بیٹوں کی پُشت سے پیدا کی گئی تھی۔ ہم اس نکتہ پر پہلے بحث کر آئے ہیں اب اس کا اعادہ نامناسب ہوگا۔ بہرحال جب ہم اس دُنیا میں بھیجے گئے تو جہاں جنت میں تو ہم اپنے باپوں کی پُشت میں سے زمین سے اُگائے گئے تھے دیگر نباتات کی طرح وہیں اس دُنیا میں ہماری پیدائش کے لئے مرد و زن کا جسمانی تعلق ایک لازمی شرط قرار پایا۔ مرد کے اندر اولاد کی خواہش فطری طور پر موجود تھی کیونکہ وہ اپنی پہلی زندگی میں بھی صاحب اولاد تھا لیکن عورت کے لئے یہ تصور اجنبی ہے۔ اس لئے آج کی عورت عمومی طور پر جنسی تعلق میں اس شدت کا مظاہرہ نہیں کرتی جس شدت کے ساتھ یہ جذبہ مرد میں موجود ہے۔ جہاں مرد ہمہ وقت اس عمل کے لئے تیار ہے وہیں عورت اس سے عمومی طور پر گریزاں ہوتی ہے۔   اس سب سے آپ کو ایک بات اور معلوم پڑی کہ جہاں باپ کا رشتہ ہماری ہر تخلیق میں ہمارے ساتھ ہے وہیں  ماں کا رشتہ ایک "اجنبی” رشتہ ہے جس کی حد صرف اس دنیاوی زندگی تک ہے۔  نہ ہماری تخلیق اولٰی میں ماں کا رشتہ موجود تھا اور نہ ہماری تخلیق اخروی میں ماں کی کوئی ضرورت ہوگی۔ اسی لئے اولاد شریعت میں اور تقریباً دنیا کے ہر معاشرہ میں باپ سے منسوب و موسوم کی جاتی ہے۔ عورت جنت میں نہ کبھی ماں بنی اور نہ کبھی ماں بنے گی جبکہ باپ ہماری حیات اولٰی میں، جنت میں بھی ہمارا باپ تھا اور یہی صورتحال بھائی بہن کے رشتہ کی بھی ہے۔جہاں تک عورت کی نسوانیت اور اس کے نسوانی تقاضوں کا تعلق ہے تو اسے تخلیق کیا گیا تھا ایک خوبصورت ساتھی کے طور پر اور یہی کردار ادا کرنا اس کی جبلی اور فطری خواہش ہے جس کے تکمیل کی شعوری اور لاشعوری کوششوں کو ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں۔

اب تک کی ہماری بحث سے انشاء اللہ یہ بات تو ثابت ہوگئی ہوگی کہ ہماری جبلی اور لاشعوری خواہشات کا منبع وہ زندگی ہے جو ہم گُزار کر آئے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ ہماری حیات اولٰی کا زمانہ لاکھوں کروڑوں برسوں پر محیط تھا اور اسی وجہ سے اس زندگی کے اطوار و خصائل ہمارے رگ و پے میں رچے ہوئے ہیں۔ اللہ قرآن میں حضرت آدمؑ کے متعلق فرماتا ہے کہ انہوں نے ایک طویل مدت جنت میں گُزاری۔ غور کیجئے جہاں اس دنیا کی زندگی کو اللہ تعالیٰ چند روزہ قرار دیتا ہے وہیں آدمؑ اور اسی اعتبار سے اولاد آمؑ کی حیات اولیٰ کو ایک "طویل عرصہ” قرار دیتا ہے اور اسی لئے ہم انسانوں کی اکثریت اس دُنیا کی زندگی کو بھی اسی طرح کی زندگی بنانا چاہتی اور اسے اسی طرح گُزارنا چاہتی ہے جیسی زندگی ہم پہلے گُزار آئے ہیں۔ انشاء اللہ اگلی نشست سے ہم اس موضوع پر بات شروع کریں گے کہ کہ آخر اس سب کچھ کا مقصد کیا ہے؟ کب اور کیوں یہ سب کچھ شروع ہوا اور اس سب کچھ کا انجام کیا اور کیوں ہوگا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے