گزشتہ نشست میں ہم نے اس بات کی تحقیق کی اور اسے ثابت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم سمیت ہم سب کو مٹی سے تخلیق کیا ۔ ہماری تخلیق خاکی کے بعد حضرت آدمؑ کو روح عطا کی گئی اور وہ مسجود ملائکہ ٹھہرے۔ اس کے بعد اماں حوا کو روح عطا کی گئی اور پھر درجہ بدرجہ آدمؑ کی تمام اولاد کو روح اور زندگی عطا کی گئی۔ ہم نے یہ بھی جانا کہ تخلیق اولاد صرف آدمؑ اور ان کے بیٹوں کے ذریعہ ہوئی۔ آدمؑ کی بیٹیوں کا اس عمل تخلیق میں کوئی کردار نہ تھا۔ اسی وجہ سے قرآن میں ایک دفعہ بھی ہمیں "حوا” کی اولاد کہہ کر نہیں پکارا گیا بلکہ ہر جگہ اسلوب "آدم کی اولاد” اور "آدم کے بیٹو” کا ہے۔ اب یہاں سے آگے سوال یہ پیدا ہوا کہ اگر ہمیں اس دنیا میں آنے سے پہلے ایک زندگی عطا کی گئی تھی تو وہ زندگی کیا تھی؟ ہم اس میں کہاں رہے اور کیا کرتے رہے؟ یہ ایک بہت اہم سوال ہے کیونکہ اس سے یہ سوال بھی جُڑا ہوا ہے کہ کیا ہماری حیات گزشتہ کے کچھ اثرات ہماری حیات دنیوی پر مرتب ہوتے ہیں یا نہیں اور اگر ہوتے ہیں تو ان کی نوعیت اور شدت کیا ہے؟
بات کو آگے بڑھانے کے لئے میں آپ کی توجہ ڈاکٹر ایلس سِلوَر کی کتاب “Humans are not from Earth” کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔ اپنی اس کتاب میں انہوں نے چند بہت دلچسپ حقائق بیان کئے جو سائنسی طور پر مسلم ہیں۔ میں ذیل میں ان حقائق کو کچھ اضافوں کے ساتھ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
1۔ اس دنیا میں ہماری بقا کا محور ہمارا سورج ہے۔ اسی کے اوپر ہمارے موسموں کا دارومدار ہے، اسی کی تپش سے زمین زندگی کو پروان چڑھانے کے قابل ہے۔ اس زمین پر موجود اگر تمام نہیں تو غالب اکثریت حیاتیاتی مادے اپنی بقا کے لئے کسی نہ کسی طرح سورج کے محتاج ہیں۔ اپنے ان تمام تر فوائد کے باوجود انسانوں کے لئے سورج ایک دشمن کی مانند ہے۔ ہم ذیل میں اس حقیقت کا کچھ گہرائی میں جائزہ لیتے ہیں۔
ا۔ سورج کی تیز دھوپ ہماری جلد کو نہ صرف جھُلسا دیتی ہے بلکہ ہمیں جلد کے سرطان جیسے مہلک مرض میں مبتلا بھی کر دیتی ہے۔ ۔ دیگر حیوان بھی جلد کے سرطان میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن اکا دُکا۔ انسانوں میں یہ شرح بہت زیادہ ہے۔
ب۔ گرمیوں میں زیادہ دیر تک سورج میں رہنا ہمیں ہلاک کر دیتا ہے اور ہر برس ہزاروں لوگ لُو لگنے سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ واضح رہے کہ زمین پر موجود تمام جانداروں میں سے انسان وہ واحد ہے جو تپتی دھوپ میں اپنی کسی مصنوعی آلہ کی مدد کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ دوسرے جانور تپتی دھوپ میں اپنے روزمرہ کے افعال سرانجام دیتے ہیں اور اس کا کوئی مضر اثر ان کے وجود پر نہیں پڑتا۔ انسان کا معاملہ ایسا نہیں۔ ہمیں اپنا سر، آنکھیں اور بدن ڈھک کر دھوپ میں نکلنا پڑتا ہے۔ یہاں ہم کپڑوں کو بھی ایک مصنوعی مدد شمار کریں گے کیونکہ ہمارے کپڑے ہمارے حیوانی وجود کا حصہ نہیں ہیں۔
پ۔ ہماری آنکھیں سورج کی چمک سے چُندھیا جاتی ہیں اور قابل استعمال نہیں رہتیں۔ زمین پر موجود دیگر تمام چرند پرند کے معاملات سورج کی چمک سے متاثر نہیں ہوتے۔ روز کا مشاہدہ ہے کہ ہم اس وقت کچھ بھی دیکھنے کے قابل نہیں ہوتے جب سورج عین ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے ۔ ہر روز کئی حادثات صرف اس لئے رونما ہوتے ہیں کہ ڈرائیور کی آنکھیں سورج کی روشنی سے چُندھیا گئیں اور وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہ رہا۔ اس کے برعکس ہمارے سروں کے اوپر پرندے ہر وقت ہر طرف بلا روک ٹوک اُڑانیں بھرتے رہتے ہیں۔ سورج کی روشنی ان کی آنکھوں کو چُندھیاتی نہیں۔ اسی طرح باقی تمام جانور بھی سورج کے رُخ کی پرواہ کئے بغیر اپنی اپنی منزل کی طرف گامزن رہتے ہیں۔ اگر آپ گھوڑے یا اونٹ پر سوار ہوں اور ایک وقت ایسا آئے جب سورج آپ کی آنکھوں کے بالکل سامنے ہو تو ہم بالکل بھی راستہ نہیں دیکھ سکیں گے لیکن وہ جانور جس پر آپ سوار ہیں وہ کسی بھی مشکل کے بغیر اپنی ڈگر پر رواں دواں رہے گا۔
ت۔ ہمیں اپنی بقا کے لئے وٹامن ڈی کی ضرورت ہے۔ جانوروں کی اکثریت میں وٹامن ڈی ان کے اپنی جلد کو چاٹنے سے پیدا ہوتا ہے یا پھر ان کی قدرتی غذا میں اس کی مناسب مقدار موجود ہوتی ہے۔ انسانوں کے ساتھ یہ دونوں معاملات ہی نہیں ہیں۔ ہمارے لئے وٹامن ڈی کے حصول کا واحد قدرتی ذریعہ سورج کی براہ راست شعاؤں کا ہماری جلد پر پڑنا ہے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ اسی عمل کے لئے بہترین وقت عین نصف النہار اور اس کے قریب کا ہے لیکن یہی وہ وقت ہے جب زیادہ دیر تک سورج کی براہ راست شعاؤں میں رہنے سے ہمیں جلد کا سرطان ہوجاتا ہے۔
ٹ ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ سورج ہمیں ہلاک کر سکتا ہے ہم میں سے اکثر تفریحاً اپنا وقت تپتی دھوپ میں گزارتے ہیں۔ کوئی اور جانور محض تفریح کے لئے تپتی دھوپ میں نہیں جاتا۔ اگرچہ ان کی جلد اور ان کے اعضاء سورج کی حدت اور اس کی شعاؤں کا مقابلہ کرنے کے لئے موزوں ہیں وہ پھر بھی صرف ضرورت کے تحت تپتی دھوپ میں نکلتے ہیں۔ انسانوں کی جلد اور اعضاء سورج کی حدت اور شعاؤں کا مقابلہ کرنے کے لئے انتہائی ناکافی ہیں لیکن ہم پھر بھی صرف تفریح اور "شاپنگ” کے لئے تپتی دھوپ میں خجل ہوتے رہتے ہیں۔ ہم سورج سے ڈرتے نہیں باوجود اس کے کہ یہ ہمیں ہلاک کرسکتا ہے۔
ث۔ زمین پر موجود حیوانات کی درجہ بندیوں میں سے ایک درجہ بندی ان کے شب وروز میں متحرک ہونے کے اعتبار سے بھی ہے۔ کچھ جانور "دن” کے جانور ہیں اور کچھ جانور "رات” کے۔ انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو ان دونوں اوقات میں ایک طرح سے فعال ہونے کی متمنی ہے۔ گزشتہ دو صدیوں کے دوران ہونے والی ہماری ترقی کا ایک غالب حصہ رات اور دن میں ہماری فعالیت کے فرق کو کم کرنے کے لئے ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں فطری طور پر اس بات سے چِڑ ہے کہ دن یا رات کا کوئی بھی ایسا حصہ ہو جب ہم اپنی مرضی کے مطابق کام نہ کرسکیں۔ ہم ایک ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں جہاں دن اور رات کا فرق نہ ہو۔ نہ صرف یہ کہ دن اور رات کا فرق نہ ہو بلکہ کچھ ایسا ہو کہ ہم جہاں بھی جائیں ہمارا ماحول اور اردگرد کا موسم ہمارے لئے فرحت بخش ہو۔ اسی لئے تو اس دور میں ہم نے ایئر کنڈیشنگ اور اس طرح کے دیگر لوازمات ایجاد کئے ہیں جبکہ پرانے وقتوں میں اس مقصد کے حصول کے لئے عمارتوں کی تعمیر میں استعمال ہونے والے اجزاء، ان کی چھتوں کی بلندی، ان میں پانی کی جھرنوں اور آبشاروں کے نظام سے لیکر پہاڑوں سے برف لانے تک کی تراکیب استعمال کرکے میدانی علاقوں کے گرم موسم کا مقابلہ کیا جاتا تھا۔
اب آپ ان سب باتوں کو سامنے رکھئے اور سوچئےکہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری تخلیق کسی ایسے مقام کے لئے ہوئی تھی جہاں سورج کی تپش اور تمازت موجود ہی نہ تھی؟ جہاں رات اور دن کا تصور اس طرح نہیں تھا کہ دن کو تیز دھوپ ہو اور رات کو گھُپ اندھیرا؟ جہاں ہر وقت ایک سی روشنی اور موسم تھا اور اس کے سبب ہمیں کھُلی آزادی تھی کہ جب چاہیں جو چاہیں کرتے پھریں کسی بھی قسم کی بیماری یا مضر اثرات کا گمان بھی کئے بغیر؟
2۔ اس زمین سے ہماری عدم مطابقت کی دوسری دلیل ہمارا اپنا وجود ہے۔ اس زمین پر موجود ہر چرند، پرند اور تمام نباتات ایک مخصوص ماحول سے متعلق و منسلک ہیں۔ اس ماحول میں بقا کے لئے انہیں کسی بیرونی سہارے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان کے بدن کے افعال سے لیکر ان کی خوراک اور ان کی رہائش کی جگہیں سب کی سب اس ماحول میں مہیا ہوتی ہیں۔ انسان ایک واحد مخلوق ہے جس کا کوئی بھی "قدرتی ماحول” نہیں ہے۔ سردی، گرمی، دھوپ، چھاؤں، خشکی، تری، کوئی بھی موسم یا جگہ ایسی نہیں جہاں ہم کسی مصنوعی سہارے کے بغیر زندہ رہ سکیں۔ سردیوں میں ٹھٹھر کر مر جاتے ہیں اور گرمیوں میں لُو لگنے سے۔ بارشوں میں ہمیں ہیضہ اور اس قسم کی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔
موسموں کی بات کی جائے تو نہ ہمیں تیز دھوپ پسند ہے اور نہ سخت سردی۔ اس معاملہ میں سب سے دلچسپ حقیقت ابر آلود موسم کی ہے جب بادل سورج کو ڈھانپ لیتے ہیں ۔ ہم میں سے تقریباً ہر شخص ایسے موسم میں اُداس ہوجاتا ہے۔ دُنیا کا شائد ہی کوئی ایسا خطہ ہو جہاں ابر آلود موسم کو دُکھ اور اُداسی کے ساتھ تشبیہ نہ دی جاتی ہو۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سخت گرمی میں جب بارش یقیناً ایک فرحت بخش احساس ہے اس وقت بھی ابتدائی چند لمحات اور گھڑیوں کی خوشی کے بعد ہم پر اُداسی اور یاسیت چھا جاتی ہے۔ آپ اگر اس اُداسی کا شکار نہ بھی ہوں تو ایسے موسم میں آپ کا جی چاہتا ہے کہ آپ کُچھ نہ کریں، بس خاموش بیٹھے رہیں۔ ایسے موسم میں اکثر انسان ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں اور ہمارے دل ایک انجانے غم سے بھر جاتے ہیں۔ ہمارا جی چاہتا ہے کہ ہم روئیں لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ کیوں روئیں اور کس کے لئے روئیں؟ ایسے جیسے ہمیں کوئی یاد ستاتی ہے لیکن ہمیں یہ یاد نہیں کہ وہ کیا ہے جس کی یاد ہمیں بے قرار کر رہی ہے؟ اس موسم میں ہمارے جسم سے جیسے توانائی چھن جاتی ہے۔ ہم ایسے جیسے ہر چیز سے لاتعلق ہوجاتے ہیں یا ہوجانا چاہتے ہیں ۔ آخر کیوں؟
3۔ ہماری زندگی کی ایک بہت بنیادی ضرورت آگ ہے جس کے بغیر ہماری حیات اور بقا تقریباً ناممکن ہے۔ کوئی اور جاندار اپنی بقا کے لئے آگ یا اس جیسے کسی مصنوعی سہارے کا محتاج نہیں۔ آگ میں خوراک پکاتے ہیں، اپنے جسموں کو سینکتے ہیں اور اس سے پیدا ہونے والی روشنی میں رات کو اپنے اردگرد ہونے والی حرکات و سکنات کو دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ ہمارے علاوہ کوئی اور حیوان اپنی بقا کے لئے آگ کا اس طرح محتاج نہیں۔ انہیں اپنی خوراک کو پکا کر کھانے کی نہ ضرورت ہے اور نہ احتیاج۔ آگ کا ایک اہم مقصدہمارے جسموں کو موسم کے اثرات سے بچانا ہے۔ سخت سردی میں تو ہمارا لباس بھی بعض اوقات ناکافی ہوجاتا ہے اور آگ کے بغیر ہماری زندگی کا برقرار رہنا ناممکن ہوتا ہے۔انسان کے علاوہ کوئی اور جاندار اپنے ماحول میں بقا کے لئے آگ اور لباس جیسے بیرونی سہاروں کا محتاج نہیں۔
4۔ ہماری حیات اور بقا پانی کے بغیر ناممکن ہے اورہماری پانی کی ضرورت کا ہمارے ماحول کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ہمارے جسم کو بہرحال ہر روز ایک مخصوص مقدار میں پانی چاہئے۔ اگرچہ ہم اور ہمارے اجداد صدیوں سے صحراؤں میں کیوں نہ رہتے ہوں، ہماری پانی کی طلب اسی طرح کی ہے جیسی ایک برساتی علاقہ میں رہنے والے انسان کی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر جگہ کا پانی نہیں پی سکتے۔ پانی اگر ایک خاص معیار کا نہ ہو تو اسے پینا ہماری زندگی کو ختم بھی کر سکتا ہے۔ دیگر کوئی حیوان اس آزمائش میں مبتلا نہیں ہوتا۔ ان کے لئے پانی صرف پانی ہے اور وہ جب چاہیں جہاں سے چاہیں پانی پی لیتے ہیں۔ یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ ہم انسانوں کی فطرت اور جبلت بھی یہی ہے کہ جہاں بھی پانی مِلے اُسے قابل استعمال سمجھا جائے لیکن مدتوں کے تجربہ نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ زمین پر موجود ہر پانی اس قابل نہیں کہ اسے پیا جائے اور پانی استعمال کے قابل ہے یا نہیں اس کی پہچان ایک باقاعدہ علم ہے جو نسل بعد نسل سکھایا جاتا ہے، ہم فطری طور پر اس صلاحیت اور علم کے ساتھ پیدا نہیں ہوتے ۔ آج کی دُنیامیں ایک بڑی صنعت صاف پانی کی فراہمی کی ہے اور اس کی دستیابی معیار زندگی کی درجہ بندی کے اولین معیارات میں سے ہے۔ اگر ہم اس زمین کے لئے بنے تھے تو ہمارے وجود دیگر حیوانات کی طرح اس پر موجود پانی کو استعمال کرنے کے قابل کیوں نہیں؟
5۔ ہم اگرچہ اپنی زندگی کا انتہائی غالب حصہ خشکی پر چلتے ہوئے گزارتے ہیں لیکن ہمارے وجود خشکی کی زندگی کی مشقت برداشت کرنے کے قابل نہیں ۔ ہمارے جسم کی ساخت ایک تیرنے والے جاندار کے ساتھ زیادہ مماثل ہے بہ نسبت ایک زمین پر چلنے والے جاندار کے۔ ہمارے جسم کا ڈیزائن یوں بنایا ہوا لگتا ہے جیسے خالق کی منشاء تھی کہ ہم اپنا زیادہ تر وقت لیٹے ہوئے گزاریں بالکل ایسے جیسے ایک دریائی جانور اپنا زیادہ وقت پانی میں لیٹے، تیرتے ہوئے گزارتا ہے۔ دیگر زمینی حیوانات کی چار ٹانگیں انہیں زمین پر پیدل چلنے اور بھاگنے دوڑنے کے قابل بناتی ہیں۔ ہماری دو ٹانگیں اس معاملہ میں ایک معذوری ہی گردانی جاسکتی ہیں کہ نہ ہمارا توازن مستحکم ہے اور نہ ہماری رفتار اور سٹیمنا دوسرے جانوروں کی صلاحیت کی قبیل کا ہے۔ ہمارے لئے ہر قدم ایک معرکہ ہے اور ہماری تھکن کی حد دوسرے زمینی جانوروں کے برخلاف بہت جلد آجاتی ہے۔ جو لوگ اپنے اجسام کو مسلسل مشقت سے اس قابل بنا لیتے ہیں کہ وہ اپنی رفتار اور اپنی برداشت کو زیادہ بہتر کر لیں وہ شاذ ہیں اور اس سارے عمل کے دوران ان کا جسم کئی دفعہ چوٹ کھاتا ہے۔انہیں اپنے جسموں کو اس مشقت کے لئے تیار کرنا پڑتا ہے۔ جانوروں کو اس کے برعکس ایسی کوئی محنت نہیں کرنا پڑتی ۔ وہ قدرتی طور پر ہی اس مشقت کے عادی ہوتے ہیں جس کا تقاضا ان کا ماحول ان سے کرتا ہے۔
6۔ ہمارے بدن پر بالوں کی کمیابی بھی ایک عجیب مسئلہ ہے۔ جانوروں کی جلد پر بال انہیں موسم کی سخیتوں سے بچاتے ہیں۔ اکثر جانوروں کے لئے سال میں دو دفعہ ان کے بال اُگتے اور اُترتے ہیں۔ سردیوں میں ان کے بال زیادہ گھنے ہوجاتے ہیں اور گرمیوں میں ان کے اکثر بال اُتر جاتے ہیں۔ چند جانوروں کے جسم پر بالوں کی تعداد کم ہوتی ہے جیسے بھینس اور ہاتھی لیکن ان جانوروں کی کھال اسی مناسبت سے بہت سخت ہوتی ہے جو انہیں موسم کی سختیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بناتی ہے۔ انسانوں کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں۔ ہماری کھال بہت نرم ہے اور اس پر بال بھی نہیں جو موسم کی سختیوں سے ہمیں بچائیں۔ ہم موسم کی سختیوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے مصنوعی سہاروں کے محتاج ہیں۔ ہم نے ایئر کنڈیشنگ ایجاد کی اور اس سے بہت پہلے اپنے گھروں کو گرم رکھنے کے لئے انگیٹھیاں ایجاد کیں کیونکہ ہماری جلد اور ہمارے بال ہمیں ہمارے ماحول سے بچانے کے لئے انتہائی ناکافی ہیں۔ اور تو اور ہمیں بارش سے بھی بچنے کے لئے پناہ گاہ چاہئے وگرنہ زیادہ دیر تک بارش میں بھیگنے سے بھی ہم بیمار پڑ جاتے ہیں۔ ہماری جلد بہت نازک ہے اور قطعاً اس قابل نہیں کہ ہمیں حوادث موسم و زمانہ سے بچا سکے۔ عام حالات میں بھی اپنی بقا کے لئے ہم اپنی قدرتی جلد کے اوپر ایک اور جلد، جسے ہم لباس کہتے ہیں، اس کے محتاج ہیں لیکن دوسرے جانوروں کے ساتھ ایسا نہیں۔ آخر کیوں؟
7۔ ہر جانور کی زندگی کا پہیہ زمین کے موسموں کے گرد گھومتا ہے۔ کچھ موسم ایسے ہیں جب ان کی غذا کی کثرت ہوتی ہے، اور ان کا ماحول ان کے بچوں کی پرورش کے لئے زیادہ سازگار ہوتا ہے۔ جانوروں کی افزائش و تولید کا نظام انہیں موسمی ادوار کا تابع ہوتا ہے۔ اسی طرح جانوروں کے اجسام اور افعال میں موسم کی تبدیلی کے ساتھ ایسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو انہیں ان موسموں میں زندگی گزارنے کے قابل بناتی ہیں۔ انسانوں کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ ہمارے لئے سردی اور گرمی دونوں ہی قاتل ہیں۔ اگر ہم اس زمین ہی کے باشندے ہوتے تو اور جانوروں کی طرح ہمارے اجسام میں بھی شدید موسموں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہوتی لیکن ایسا نہیں ہے۔ جن جانوروں کے جسم موسم کی شدت کو برداشت نہیں کرسکتے وہ ان شدید موسموں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتے رہتے ہیں۔ ہم انسانوں کے لئے یہ بھی ممکن نہیں کیونکہ ہمیں اپنی رہائش کے لئے دوسرے جانوروں سے زیادہ پیچیدہ گھر بنانے پڑتے ہیں جنہیں اُکھاڑ کر لے جانا ممکن نہیں ہوتا۔ جو خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے ہیں ان کی زندگی کا دائرہ بھی چند سو مربع میل کے رقبہ میں ہی گھومتا رہتا ہے۔ ان کے خیمے یا تو سخت سردی سے بچاؤ کےحامل ہوتے ہیں اور یا سخت گرمی کے۔ ہر دو انتہاؤں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت والے خیمے خانہ بدوشوں کے یہاں تقریباً ناپید ہی ہیں۔ اسی طرح ہمارے یہاں ولادت و تولید کا عمل دنیا میں ہر جگہ، ہر موسم میں جاری رہتا ہے۔ دوسرے جانوروں کی طرح ہم "بریڈنگ گراؤنڈز” کے محتاج نہیں اور نہ اس کے لئے کسی خاص موسم کا انتظار کرتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے ہمارے وجود کسی ایسے مقام کے لئے تخلیق کئے گئے تھے جہاں سردی گرمی کا کوئی وجود ہی نہ تھا ۔ جہاں ہر وقت موسم ایک سا خوشگواار اور سُہانا رہتا تھا۔ جہاں کھانے پینے کی چیزوں کی اس طرح فراوانی تھی کہ کسی چیز کی کسی بھی وقت کمیابی کا تصور ہی نہ تھا اور یہی حقیقت ہمارے رویوں میں آج بھی رچی بسی ہوئی ہے۔
8۔ ہم میں سے ہر انسان کسی نہ کسی دائمی نفسیاتی اور جسمانی مرض میں مبتلا ہے۔ یہ ایک انتہائی انوکھی اور چونکا دینے والی حقیقت ہے۔ دوسرے حیوانات میں بیمارہونا ایک غیر معمولی بات ہےجبکہ انسانوں میں مکمل طور پر صحتیاب افراد کا ملنا ناممکن ہے۔ جو بظاہر صحتیاب دکھائی دیتے ہیں انہیں بھی اندر ہی اند کوئی نہ کوئی روگ گھُن کی طرح کھا رہا ہوتا ہے ۔ یوں لگتا ہے جیسے اس زمین کا ماحول ہمارے رہنے کے لئے مکمل طور پر سازگار نہیں۔ جیسے ہم یہاں کے کل وقتی باشندے نہیں وگرنہ دوسرے حیوانات کی طرح ہم بھی اپنی زندگیوں کا بیشتر حصہ مکمل صحتیابی کی حالت میں گُزارتے۔
9۔ ہم انسان فطری طور پر کاہل اور سُست واقع ہوئے ہیں۔ ہماری دلی خواہش ایک ایسی زندگی بسر کرنے کی ہے جس میں ہمیں کوئی کام کئے بغیر بیٹھے بٹھائے اپنی مرضی کی ہر چیز ہمہ وقت دستیاب ہو۔ ہماری تمام تر ایجادات ہماری اسی خواہش کی تکمیل کے لئے کی گئی ہیں۔ کم سے کم محنت کرکے زیادہ سے زیادہ کام کر لینا ہماری مہارت اور فن کی معراج گردانی جاتی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کی خواہش ہے کہ ہمہ وقت ہمارے اردگرد ملازمین کی ایک فوج موجود ہو جو ہمارے ابرو کے اشارے پر ہمارے مزاج کے عین مطابق ہماری خدمت میں مشاق ہوں۔ غلام اور ملازموں سے لے کر ایلیکسا ،سری ، خود کار گاڑیاں اور جہاز، آرٹیفیشئل انٹیلیجنس کی ایجاد تک ہر چیز اس ایک خواہش کی تکمیل کے لئے ہے۔ ہماری شدید ترین خواہش یہ ہے کہ ہمیں "کام” نہ کرنا پڑے ۔ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ ہمارے اجسام کی ساخت بھی کچھ ایسی ہی معلوم ہوتی ہے جیسے یہ کام کرنے کے لئے نہیں بلکہ آرام کرنے کے لئے بنے ہوں ۔ یوں جیسے کسی کاریگر نے ہمیں نہایت نفاست سے بنایا ہو۔ اگر اس بات کو تمثیلاً بیان کیا جائے تو اس زمین کے باقی حیوانات و حشرات و نباتات کی نسبت انسان کی مثال لوہے کی کان میں پڑی ہوئی شیشے کی ایک نازک بوتل کی سی ہے۔ شیشے کی اس نازک بوتل کا لوہے کی کان میں کیا کام؟
10۔ ہماری خوراک اور ہمارا اس کے متعلق رویہ بھی ایک انوکھی مثال ہے۔ انسان وہ واحد مخلوق ہے جو خوراک کو غذائیت کے لئے نہیں بلکہ اس کے ذائقہ کے لئے کھاتا ہے۔ "قدرتی غذا” کا کوئی تصور ہمارے ذہنوں میں موجود نہیں ۔ شیر اپنی تمام عمر گوشت کو غذا سمجھ کر ہی کھاتا ہےاور کبھی اس میں کوئی تغیر نہیں کرتا اور نہ اسے اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ہم انسان لاکھوں قسم کے کھانے پکاتے اور کھاتے ہیں لیکن کونسا کھانا بہتر ہے اس کے لئے ہم کھانے کی غذائیت نہیں بلکہ اس کی شکل، اس کی خوشبو اور اس کے ذائقہ کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہ رویہ کسی ایک گروہ یا علاقہ کا نہیں بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کا مشترک رویہ ہے۔ کھانوں میں سب سے زیادہ مشکل ہمارے لئے چیزوں کو ان کی اصل حالت میں کھانا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال سبزیاں اور پھل ہیں۔ جو غذا جس قدر "فطری” ہوگی، ہم اسے کھانے کو اتنا ہی ناپسند کریں گے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ اگرچہ سبزیوں اور پھلوں کی موجودہ اقسام جو ہم کھاتے ہیں وہ اپنی اصل، فطری حالت سے بہت بدل چکی ہیں۔ ہزاروں سالوں میں ہم نے تجربات کرکے انہیں کچھ کا کچھ بنا دیا ہے لیکن پھر بھی ہمیں انہیں کھانے کے لئے اپنے آپ کو کئی دلیلیں دینا پڑتی ہیں۔ بالغوں میں تو یہ بات کام کرجاتی ہے لیکن بچے جو فطرت کے قریب ترین ہیں انہیں سبزیاں اور پھل کھلانا جوئے شیر لانا ہے۔ تمام دنیا کے بچوں کو سبزیوں اور پھلوں کا ذائقہ ناپسند ہوتا ہے۔ کیوں؟ کیا پھلوں اور خوراک کے ایسے ذائقے ہمارے تحت الشعور میں موجود ہیں جو ان ذائقوں سے بہت بہتر ہیں جو ہمیں اس دنیا میں دستیاب ہیں؟ اور پھر ایک عجب بات یہ کہ جب ہمیں کسی چیز کا ذائقہ پسند آتا ہے تو ہمارا جی چاہتا ہے کہ ہم اسے بس کھاتے چلے جائیں۔ ایک عام محاورہ ہے "پیٹ تو بھر گیا لیکن نظر نہیں بھری”۔ آخر کیوں؟ ایسا لگتا ہے جیسے اور باتوں کی طرح "پیٹ کا بھر جانا” بھی ایک ایسا عمل ہے جو ہمارے لئے فطری نہیں ہے۔ اپنی پسندیدہ خوراک کے لئے ہمارا طرز عمل یہی ہوتا ہے کہ اسے بس کھائے جائیں اور کھائے جائیں جب تک کہ ہمارا اس سے دل نہ بھر جائے۔ اسی لئے بسیار خور اور توندیل ہونے کے لحاظ ہم انسان تمام مخلوقات ارض میں ایک نمایاں اور انوکھی مثال ہیں۔ اور کسی جانور میں بسیار خوری یا توندیل ہونے کا رحجان نہیں پایا جاتا۔ آخر ہم انسانوں میں ایسا کیوں ہے؟ کیا ہم کسی ایسی جگہ رہے تھے جہاں ہم چاہے جتنا بھی کھاتے ہمارا پیٹ کبھی بھرتا نہیں تھا اور شائد ہم کھانا بھوک ختم کرنے کے لئے کھاتے ہی نہیں تھے کہ ہم کبھی بھوکے ہوتے ہی نہیں تھے۔ ہم کھانا صرف ذائقہ محسوس کرنے کے لئے کھاتے تھے اور جتنا جی چاہتا تھا کھاتے تھے۔ زیادہ کھانا ہمارے وجود پر نہ تو گراں گزرتا تھا اور نہ ہی کوئی بار بنتا تھا۔
11۔ ہم اپنی زندگیوں کا اگر تمام حصہ اس سیارہ جسے زمین کہا جاتا ہے اس پر گُزارتے ہیں لیکن ہم اپنے دلوں کے اندر اس کے لئے کوئی اُلفت محسوس نہیں کرتے۔ باتوں کی حد تک یہ کہا جاتا ہے کہ زمین گھر ہے لیکن سچ بات یہ ہے کہ ہم زمین کو اپنا گھر نہیں سمجھتے۔ آج کے دور میں "ترقی یافتہ” اقوام کی جدوجہد کا غالب حصہ زمین کو انسانوں کے اثرات سے بچانے کے لئے مختص ہے۔ کروڑوں اربوں ڈالر ہر سال اس مد میں خرچ کئے جاتے ہیں کہ انسانوں کو اس زمین کو نقصان پہنچانے سے روکا جائے۔ آخر کیوں؟ اگر یہ ہمارا گھر ہے تو ہمیں اس سے اُلفت ہونی چاہئے تھی اور اس کی فلاح و بقا ہمارا اولین مقصد ہونا چاہئے تھا۔ انسان کے سوا اور کوئی زمینی حیوان اس زمین کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ ہم اس زمین پر موجود قابل ترین اور عاقل ترین مخلوق ہیں، ہم میں اس زمین کا خیال رکھنے کا احساس دوسرے حیوانات کے نسبت بہت زیادہ ہونا چاہئے تھا لیکن ہم فطری طور پر اس زمین سے لاتعلق ہیں اور ہمیں اس کی بقا اور فلاح سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اس زمین کا خیال رکھنا اور اس کی بقا کی فکر کرنے کے تصورات اور خیالات ہمیں سکھائے جاتے ہیں چاہے مذہبی طور پر اور چاہے معاشرتی طور پر۔ اس زمین سے اُنس رکھنا ہماری فطرت نہیں ہے بلکہ فطری طور پر ہمارا رحجان آسمانوں کی طرف ہے۔ ہمیں ہمیشہ اس زمین کی بجائے آسمان میں کشش محسوس ہوتی ہےاور اندھیری راتوں میں ان ستاروں کو تکنا ہمیں راحت دیتا ہے جو ہم سے کروڑوں، اربوں نوری سال دور ہیں۔ کیوں؟ صدیوں سے انسان اس زمین کو کھوجنے کی بجائے ستاروں کے متعلق جاننے کی جُستجو کررہا ہے۔ جیالوجی کے علم کے وجود سے ہزاروں برس پہلے ہم ستاروں کے علم میں مہارت پیدا کرچکے تھے۔ اس زمین کے تمام براعظم دریافت کرنے سے بہت پہلے ہم آسمان کے ستاروں کے بُروج بنا چکے تھے اور ستاروں کی چال کے جدول مرتب کر چُکے تھے۔ آج بھی ہم ایک کثیر رقم اس مد میں خرچ کر رہے ہیں کہ کسی طرح اس زمین کے سوا کہیں اور زندگی پالیں یا آسمانوں میں آباد ہونے کی کوئی اور جگہ ڈھونڈ لیں۔ ایسے جیسے یہ زمین ہمارا گھر نہیں بلکہ ایک قید خانہ ہے اور قید خانہ کیسا ہی آرام دہ کیوں نہ ہو انسان ہمیشہ اس سے فرار اور نجات کی کوشش کرتا ہے۔ کیا ہمارے تحت الشعور میں یہ بات کہیں لکھی ہوئی ہے کہ یہ زمین ہمارے لئے ایک قید خانہ ہے جہاں ہمیں ایک خاص مدت تک اپنی سزا کاٹنی ہے اور اس مدت کے بعد ہمیں واپس اپنے گھر جانا ہے جو دور آسمانوں میں کہیں موجود ہے؟
12۔ ہمارے باہمی تعلقات بھی ایک عجوبہ ہیں۔ ہمارے معاشرتی نظام کی بنیاد انسانوں کو انسانوں سے بچانے کے بنیادی اصول پر قائم ہے۔ اگرچہ ہم میں سے ہر ایک کی شدید ترین خواہش یہ ہے کہ ہمارےاردگرد تمام لوگ بے غرض ہوں، ہمیں ان سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہ ہو اور وہ ہر معاملہ میں ہمارے ساتھ بہترین برتاؤ رکھیں لیکن ہمیں انتہائی ابتداء سے ہی سکھا دیا جاتا ہے کہ اس بات کا گمان رکھنا بھی اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ آپ غور کررہے ہیں کہ ہماری فطری خواہش انسانوں سے پیار کرنا اور ان پر اعتماد کرنا ہے لیکن ہماری بقا کے لئے یہ تعلیم ضروری ٹھہری کہ ہم جس قدر جلد ہو سکے اس فطری خواہش سے پیچھا چھُڑا لیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ ہم جانتے ہیں ہر انسان اپنی خواہشات کا غلام ہے اور بانٹ کر کھانا ہماری فطرت نہیں ہے۔ اس کے برعکس ہماری فطری جبلت یہ ہے کہ جو چیز ہمیں پسند آئے ہم اسے لے لیں۔اس دنیا میں ہونی والی تمام تر ناانصافی اور ظلم اسی ایک حقیقت کی وجہ سے ہے۔ اس کی واضح مثال آپ بچوں میں دیکھ سکتے ہیں کہ انہیں جب کوئی چیز پسند آتی ہے تو وہ اسے دوسرے سے چھین لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ تصور ہی نہیں موجود ہوتا کہ ان کے اس چیز کو لے لینے سے وہ چیز دوسرے سے "چھِن” گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جتنا کسی بچے کی طبیعت سادہ ہوتی ہے اتنی ہی دیر اسے اس دنیا کے "معاشی” معاملات کو سمجھنے میں لگتی ہے۔ یہ ادراک کہ جو میرے پاس ہےضروری نہیں کہ وہ دوسرے کے پاس بھی ہو یہ ایک ایسا تصور ہے جو ہمارے لئے اجنبی ہے۔ ہمارا جی تو چاہتا ہے کہ اس دنیا میں ہر شخص خوشحال ہو لیکن ہم اس تصور سے مانوس نہیں ہیں کہ ایسا ہونے کے لئے ہمیں "اپنے حصہ” میں سے اوروں کو کُچھ دینا پڑے گا۔ ایسے کسی بھی مطالبہ کے لئے ہمارا پہلافطری جواب ہوتا ہے "کیوں؟”۔ کیا ہم انسان طبعاً کمینے ہیں یا پھر یہ کہ ہم کسی ایسے ماحول اور جگہ سے آئے ہیں جہاں کسی چیز کی کمیابی کا کوئی تصور ہی موجود نہیں تھا اور ہر فرد کے لئے اس کی من پسند چیز ہمہ وقت دستیاب تھی سو کسی چیز کے بانٹنے کی نہ ضرورت تھی اور نہ سوال؟
13۔ مرد اور عورت کے تعلقات بھی اس معاملہ میں ایک عجب مثال ہیں۔ ہر عورت کا جی چاہتا ہے کہ اسے سراہا جائے۔ جب سے انسان اس زمین پر موجود ہے اس وقت سے ہر عورت اپنے آپ کو آراستہ کرتی ہے کہ اسے سراہا جائے۔ وہ نئے نئے روپ دھارتی ہے کہ مرد اس کی طرف متوجہ ہو۔ عورت یہ چاہتی ہے کہ اس کا مرد انتہائی شدت کے ساتھ اس کی طرف مائل ہو لیکن مرد کی چاہت کی شدت جس قُرب کی متمنی ہوتی ہے عورت اس سے گریزاں ہوتی ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ مرد اس سے پیار کرے، اس کی باتیں سُنے اور گھنٹوں کے حساب سے سُنے اور تو اور عورت اس بات پر بھی خوش ہوتی ہے کہ مرد اس سے بوس و کنار کرے لیکن وہ وصل تام سے گریزاں ہوتی ہے۔دنیا کی اکثر عورتوں کو مرد سے شکائت ہی یہ کہ مرد صرف جنسی تسکین کا خواہشمند ہے۔ عورت کو محبوبہ بن کر رہنا تو پسند ہے لیکن بیوی بن کر رہنے سے اسے چِڑ ہے۔ کیوں؟ کیا اس لئے کہ عمل تولید اور اس میں حصہ لینا اس کے لئے ایک اجنبی چیز ہے؟ ان کا جی چاہتا ہے کہ ان کے اور ان کے مرد کے تعلقات کے درمیان باقی ہر چیز اپنی انتہائی شدت کے ساتھ موجود ہو لیکن جسمانی اختلاط اس تعلق میں سے کسی طرح غائب ہوجائے۔ آپ نے خواتین کے لکھے ہوئے افسانوں میں "پاکیزہ محبت” کی مثال کئی بار پڑھی ہوگی۔ عورت فطری طور پر ایک ایسی محبت چاہتی ہے جو انتہائی شدید ہو لیکن جنسی تعلق سے پاک ہو۔ مرد و عورت کے تعلق کی اس جہت سے عورت اس قدر گریزاں کیوں ہے؟
اس کے برعکس مرد کو لیجئے۔ انہیں عورت سے زیادہ اس زمین پر کوئی چیز نہیں لبھاتی ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر اشتہار میں، ہر بل بورڈ پر آپ کو ایک عورت نظر آتی ہے لیکن اس فطری کشش کے باوجود مرد کی عورت سے اولین اور شدید ترین خواہش اولاد پیدا کرنا اور اس کی پرورش کرنا ہوتی ہے۔ اس کی شدید جنسی خواہش کی اصل وجہ اس کی اولاد کی "بھوک” ہے۔ مرد اپنی فطرت میں ہمیشہ اولاد پیدا کرنے کے لئے تیار رہے گا اور اسی وجہ سے مرد ہمیشہ ایک خوبصورت عورت پر ایک "زرخیز” عورت کو ترجیح دے گا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مرد ہمیشہ سے اپنی اولاد، بالخصوص اپنے بیٹوں، اور اپنے مال کی زیادتی پر فخر کرتا آیا ہے اور زیادہ اولاد اسے صرف ایک زرخیز عورت ہی دے سکتی ہے۔ قرون وسطٰی کے سلاطین کے حرم سینکڑوں خوبصورت لڑکیوں سے آباد ہوتے تھے لیکن ان کی ملکائیں وہی ہوتی تھیں جو انہیں اولاد دیتی تھیں ۔ اس کے برعکس عورت کو ہمیشہ اپنے حُسن ،اپنی جوانی اور اپنی کشش پر ناز ہوتا ہے اور وہ اسے برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ اولاد کی پیدائش عمومی طور پر عورت کے فطری حُسن میں کمی کا باعث ہوتی ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ اکثر خواتین کثیر الاولاد ہونا پسند نہیں کرتیں۔ کیسی عجب بات ہے کہ مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کا جزو لاینفک ہیں اور دونوں کا ساتھ اس دنیا میں افزائش نسل کے لئے ہے لیکن دونوں کی ترجیحات میں اس قدر فرق ہے۔ جانور بھی ہماری طرح افزائش نسل کے لئے اپنے زوج کے محتاج ہیں لیکن ان کا "معاشرتی” نظام اس لحاظ سے ہم انسانوں سے بہت بہتر ہے۔ مادہ صرف ایک خاص وقت میں جنسی ملاپ کے لئے تیار ہوتی ہے اور اس دوران اس کی تمام تر توجہ حاملہ ہونے پر ہوتی ہے۔ جیسے ہی وہ حاملہ ہوتی ہے وہ اور اس کا نر اپنی اپنی راہ لیتے ہیں۔ نہ وہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کی گھنٹوں باتیں سُنی جائیں، نہ یہ کہ مستقل بنیادوں پر اس کے ناز نخرے اٹھائے جائیں۔ بچہ پیدا کیا، اسے بڑا کیا اور پھر سے ایک نئے جوڑے کی تلاش۔ یہ عمل ان کی زندگیوں میں کئی بار دُہرایا جاتا ہے۔ ہم انسان اس کے برعکس اپنے زوج میں ایک "ساتھی” کی خواہش کرتے ہیں۔ یہ خواہش اگرچہ مرد اور عورت میں یکساں ہے لیکن ہماری ترجیحات ایک دوسرے سے اس قدر مختلف ہیں کہ اس خواہش کا اس طرح پورا ہونا کہ دونوں رفقاء یکساں طور پر خوش اور مطمئن ہوں یہ ایک خام خیال ہی سمجھا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیااس کا سبب یہ ہے کہ ہم کسی ایسے دور میں زندہ رہے ہیں جہاں مرد اور عورت کا تعلق محض "رفاقت” کے لئے تھا ، جہاں مرد اور عورت کے لئے ایک دوسرے میں کشش تو تھی، جنسی لذت نہیں تھی ؟ جہاں عورت بنتی سنورتی تھی تو اس کی طرف متوجہ ہوا جاتا تھا، اس کی تحسین کی جاتی تھی، اس سے بے شمار باتیں کی جاتی تھیں، اس کے ساتھ کھایا پیا، گھوما پھرا جاتا تھا لیکن وصل تام اور جنسی لذت کا تقاضا نہیں کیا جاتا تھا۔جہاں مرد کے لئے عورت ایک خوبصورت اور دلنواز ساتھی تھی لیکن اولاد کے حصول کا ذریعہ نہ تھی ۔ جہاں مرد کو کثیر الاولاد ہونا پسند تھا لیکن اپنی اولاد کی خواہش پورا کرنے کے لئے اور اپنی اولاد کو پروان چڑھانے کے لئے اسے عورت کی احتیاج نہ تھی۔
یہ سب بیان کرنے کے بعد میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ ان سوالات اور حقائق کو سوچیں اور ان پر غور کریں۔ کیا یہ سب ہمارے روز مرہ کا مشاہدہ نہیں ہیں؟ آپ کا کیا خیال ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ تمام رویئے ہمارے ذہنوں اور ہماری عادات میں اس قدر پختہ ہیں حالانکہ اس زمین پر ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لئے ہماری فطر ت کو ان کے برعکس رویئے اپنانے چاہئے تھے؟ پھر یہ تمام روئیے آخر کہاں سے اور کیوں ہماری فطرت میں گھُس آئے ہیں؟