فروری 20, 2024

پریشاں ہوں میں مشت خاک لیکن کچھ نہیں کھلتا

گزشتہ نشست میں ہم نے ان باتوں کا جائزہ لیا تھا جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ انسان اس زمین کی مخلوق نہیں ہے۔ ہمارے ذہن، ہمارے جسم یوں لگتا ہے جیسے کسی اور ماحول کے لئے بنے تھے۔ ہمارے رویئے یوں جیسے کسی اور طرز زندگی کے عادی ہیں۔ ذیل میں ہم ایک بار پھر ان تمام نکات کا سرسری اعادہ کر لیتے ہیں۔

1۔ ہمارے جسم اس زمین کے موسم اور اس کے حالات کو برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ سورج کی تپش ہو یا برفانی ٹھنڈک، خشکی ہو یا تری اس زمین پر کوئی ایسی جگہ اور کوئی ایسا ماحول نہیں ہے جہاں ہم لباس ، آگ اور دیگر مصنوعی سہاروں کے بغیر سارا سال زندہ رہ سکیں۔ اس سب کچھ کے باوجود ہم میں سے ہر فرد کسی نہ کسی دائمی مرض میں مبتلا ہے۔

2۔ اگرچہ ہمارے اجداد میں سے کچھ نے اپنی زندگی شکار کرتے اور کھاتے گُزاری ہے لیکن ہماری اجسام اس کڑی مشقت کے لئے قطعاً موزوں نہیں ہیں جو اس زمین پر بقا کے لئے ضروری ہے۔ جن افراد یا اقوام نے اپنی زندگیاں شکار کے بل بوتے پر گُزاری ہیں انہوں نے بھی مصنوعی آلات از قسم نیزہ، برچھا، تیر کمان وغیرہا کے بل پر اپنے شکار کو زیر کیا۔ شیر، چیتے، بھالو وغیرہا کی طرح ہمارے پنجے اور ہماری جبڑے اس قدر طاقتور نہیں کہ شکار کو جسمانی طور پر قابو کرکے اسے زیر کرسکیں۔

3۔ ہم اپنی خوراک کو غذایئت کے لئے نہیں بلکہ ذائقہ کے لئے کھاتے ہیں اور ہمارے من پسند کھانوں کے لئے ہمارا رویہ یہ ہے کہ ہم اسے بس کھاتے چلے جائیں۔ بسیار خوری کی عادت اس زمین کے جانداروں میں صرف انسانوں میں ہے۔

4۔ ہمیں بنیادی طور پر اس زمین سے اُلفت اور اُنس نہیں ہے۔ ہم ہمیشہ سے اس زمین سے دور آسمانوں میں کوئی چیز کھوجتے ہیں اور اس زمین سے باہر نکل جانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اُڑنے کا شوق ہو یا آسمان کے ستاروں کو کھوجنے، اُن کے بُرج بنانے اور ان کا اپنی زندگی میں عمل دخل ڈھونڈنے کی کوشش، ہمارے بہترین دماغ ہمیشہ اس زمین سے باہر کی چیزوں کی تحقیق اور جُستجو میں مصروف رہے ہیں۔

5۔ اس زمین کے موسم ہمارے لئے اجنبی ہیں۔ کوئی ایک موسم "ہمارا” موسم نہیں البتہ ابر آلود موسم سے ہماری کچھ عجیب وابستگی کچھ اس طرح ہے کہ انسانوں کی اکثریت اس موسم میں بے انتہا اُداس ہوجاتی ہے۔ جیسے ہمارا کُچھ کھو گیا ہو اور ہم اس کے کھو جانے کی کسک اور اس کی شدت تو محسوس کرتے ہیں لیکن یہ محسوس کرنے سے قاصر ہیں کہ وہ کیا ہے جو ہم سے گُم گیا ہے؟

6۔ ہمیں فطرتاً بانٹ کر کھانے کی عادت نہیں۔ یہ رویہ ہمیں سیکھنا پڑتا ہے۔ اپنی ابتدائی زندگی میں ہمیں نہ محرومی کا شعور ہوتا ہے اور نہ اس بات کا ادراک کہ "جو میرے پاس ہے وہ دوسرے کا پاس نہیں ہو سکتا”۔ محدودیت اور ملکیت کے تصورات ایسے جیسے ہمارے لئے اجنبی ہیں۔

7۔ زندگی پانی کے بغیر ناممکن ہے لیکن ہمارے جسم ہر طرح کے پانی کو قبول کرنے کے عادی نہیں۔ زمین کے پانی کو ایک خاص طرز کی شفافیت اور معیار کا ہونا چاہئے تب ہی ہم اسے استعمال کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ دیگر زمینی حیوانات کے ساتھ یہ معاملہ نہیں۔

8۔ ہمیں بنیادی طور پر زمینی خوراک پسند نہیں ہے۔ ہم ان کے ذائقوں کو یا تو  ناپسند کرتے ہیں یا اُن سے اُکتا جاتے ہیں۔ ہم نے ہزاروں لاکھوں ترکیبیں ایجاد کی ہیں کہ کسی طرح اس زمین پر موجود خوراک کو اپنے لئے من پسند بنا سکیں اور پھر بھی ہم عمومی طور پر اپنی خوراک سے ناخوش ہیں۔ ہمیشہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ "ایک آدھ آنچ کی کسر رہ گئی”۔

9۔ ہم بنیادی طور پر سُست اور کاہل ہیں۔ ہماری زندگی کی بنیادی خواہشات میں سے ایک خواہش یہ ہے کہ ہمیں کچھ کئے بغیرہر وقت ہر آرام میسر ہو اور ہمہ وقت ہمارے اردگرد ایسے خدمتگار موجود ہوں جو ہمارے اشارہ ابرو اور ہمارے دل کی ہر خواہش کو سمجھ کر ہر چیز اور کام ہماری منشاء کے عین مطابق کریں۔

10-مرد و زن کے باہمی تعلقات بھی ایک عجوبہ ہیں۔ مرد عورت سے التفات کے ساتھ ساتھ بھرپور جنسی تعلق اور  کثرت اولاد چاہتا ہے جبکہ عورت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی تحسین تو کی جائے، اس کے ساتھ گھنٹوں کے حساب سے دلچسپ باتیں تو کی جائیں،آپس میں جسمانی چھیڑ چھاڑ اور ہنسی مذاق تو ہو لیکن مرد و زن کا جو جنسی تعلق اور تقاضہ ہے اس سے احتراز کیا جائے۔

ان تمام حقائق کو جب ہم اپنے سامنے رکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے ہم کسی ایسی جگہ کی مخلوق ہیں جہاں کی زندگی اور ماحول اس زمین سے بہت مختلف تھا۔ اب اگر ایسی کوئی جگہ تھی یا ہے تو  اگر ہم اس جگہ کی شناخت کر سکیں تو شائد ہم اپنے رویوں اور اس زمین کے ساتھ اپنے تعلق کی نوعیت کی بھی تشخیص کر سکیں گے۔ تو آئیے ایک فہرست بناتے ہیں ان خصوصیات کی جو  ہمارے "اصل گھر” میں موجود ہونے چاہئیں اور پھر ہم دیکھیں گے کہ کیا ایسی کوئی جگہ ہمارے علم میں موجود ہے جس میں یہ تمام خواص پائے جاتے ہیں؟

1۔ ہمارے اصل گھر میں موسم ہر وقت خوشگوار ہونا چاہئے۔ جہاں ہم لباس اپنے آپ کو آراستہ کرنے کے لئے پہنیں اپنے آپ کو موسم کی سختی سے بچانے کے لئے نہیں۔ جہاں رات اور دن کا فرق اول تو ہو ہی نہیں اور اگر ہو بھی تو بہت معمولی جس سے ہمارے معمولات میں کوئی فرق نہ آئے۔

2۔ ہمارے اصل گھر میں سورج کی تپش نہیں ہونا چاہئے کیونکہ سورج کی تپش ہمارے لئے تکلیف دہ اور اس کی شعائیں ہمارے لئے جان لیوا ہیں۔ وہاں روشنی تو ہو لیکن چھپی چھپی، شائد ایسے جیسے ہر وقت وہاں بادل ہی چھائے رہتے ہوں جو سورج کی تپش اور تیز شعاؤں کو ہم تک پہنچنے سے روکے رکھتے ہوں۔

3۔ ہمارے اصل گھر میں جو پھل اور میوے ہوں وہ نہایت خوش ذائقہ اور لذیذ ہونا چاہئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی انواع میں اس قدر جدت ہونا چاہئے کہ ہم ان اس اُکتا نہ جائیں۔

4۔ ہمارے اصل گھر میں ہم اپنے من پسند کھانوں کو جتنا جی چاہیں اتنا کھا سکیں۔ زیادہ کھانے سے نہ تو ہمیں بدہضمی کی شکایت ہو اور نہ ہماری طبیعت میں کسی قسم کی گرانی ہو۔ زیادہ کھانے سے ہمارے وزن اور ہیئت میں بھی کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئے۔ ہم جب چاہیں، جو چاہیں، جیسے چاہیں، اور جتنا چاہیں کھائیں اور اس کا ہمارے جسم پر قطعاً کوئی منفی اثر نہیں پڑے۔

5۔ جس جگہ کے ہم باسی ہیں وہاں ہم ہر قسم کی بیماریوں سے محفوظ ہوں گے۔ وہاں کا موسم اور خوراک اس قدر متوازن اور مناسب ہوگی کہ ہمارے جسم میں کسی قسم کا کوئی بگاڑ پیدا ہی نہیں ہوگا۔

6۔ ہمارے اصل مسکن میں کسی شے کی قلت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔ ہر چیز ہر فرد کی دسترس میں ہوگی۔ ہم آپس میں چھینا جھپٹی ہنسی کھیل میں تو کریں گے لیکن کوئی بھی فرد کسی بھی ایسی چیز سے محروم نہیں ہوگا جس کی اسے خواہش ہو۔

7۔ جہاں کے ہم اصل مقیم ہیں وہاں کا پانی ہمارے لئے بہت فرحت بخش اور روح افزا ہوگا۔ ہم جب چاہیں، جہاں سے چاہیں، جتنا چاہیں پانی پی سکیں گے۔ نہ اس میں کوئی آلائش ہوگی، نہ اس کا ذائقہ خراب ہوگا اور نہ اس کی تازگی میں فرق آئے گا۔

8۔ ہمارے اصل گھر میں ہمیں "کما کر کھانا” نہیں پڑے گا۔ ہم جتنا جی چاہیں آرام کریں گے۔ ہمیں ہر عیش بنا کام کئے میسر ہوگی اور ہمارے اردگرد ایسے خدمتگار ہوں گے جو ہمارے دل کی خواہش اور ہماری ابرو کے اشاروں کو سمجھتے ہوں گے اور ہر کام ہماری پسند کے عین مطابق کریں گے۔

9۔ہمارے اصل گھر میں اولاد کی پیدائش مرد و زن کے جنسی تعلق کی محتاج نہیں تھی۔ عورت مرد کے لئے ایک خوبصورت ساتھی تھی جس کے ساتھ وہ پہروں باتیں کرتا تھا، لاڈ پیار کرتا تھا،  اپنے روز و شب گُزارتا تھا لیکن جنسی تعلق سے بے نیاز تھا۔ اس کی اولاد کی خواہش جنسی تعلق کے بغیر پوری ہوگئی تھی یا ہو جاتی تھی۔ عورتیں بھی وہاں صرف سجتی سنورتیں، ہنستی گاتی، خوشیاں مناتی گھومتی پھرتی تھیں۔ نہ کوئی انہیں ستاتا تھا اور نہ کوئی ان سے کسی چیز کا مطالبہ کرتا تھا۔ ان کے شب و روز بس سجنے سنورنے، اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہنسنے کھیلنے میں صرف ہوتے تھے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ایسی آئیڈیل جگہ ہے جو ان تمام معیارات پر پوری اُتر سکتی ہے؟ اور اگر ہے تو پھر ہمارا اس جگہ سے تعلق کیا ہے؟ کیا ہم کبھی وہاں رہے ہیں؟ اگر رہے تو کب اور کتنی دیر تک؟ پھر اس زمین سے ہمارا کیا تعلق ہے؟ اور سب سے بڑی بات کہ کیا ہم پھر کبھی اپنے اصل گھر واپس جا پائیں گے؟ کیا آپ کے ذہن میں ان سوالات کے جوابات آتے ہیں؟ اگر آتے ہیں تو کمنٹ میں لکھئے۔ میں ان سوالات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار انشاء اللہ اگلی نشست میں کروں گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے