الحمدللہ گزشتہ نشست میں ہم نے اس موضوع کو کُریدا کہ ہم سب کی تخلیق اولٰی مٹی سے ہوئی تھی۔ قرآن پاک میں اللہ تعالٰی اس بات کو بلا کسی شک و شبہ کے متعد مواقع پر بیان فرماتا ہے۔ ہم ان مقامات میں سے کچھ کا دوبارہ اعادہ کر لیتے ہیں۔
سورۃ طٰہ میں ارشاد ہوتا ہے۔
مِنْهَا خَلَقْنَٰكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ (طٰہ:۵۵) اسی میں سے ہم نے پیدا فرمایا تم سب کو، اور پھر لوٹایا تم سب کو اسی میں اور اسی میں سے ہم نکالیں گے تم سب کو
یہی بات سورۃ غافر میں اس طرح دوہرائی جاتی ہے۔
هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍۢ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍۢ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ (غافر:۶۷) اس نے تم سب کو پیدا کیا مٹی سے، پھر نطفہ سے پھر ایک لوتھڑے سے
سورۃ حج میں بیان ہوتا ہے۔
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِن كُنتُمْ فِى رَيْبٍۢ مِّنَ ٱلْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَٰكُم مِّن تُرَابٍۢ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍۢ (الحج:۵) اے لوگو اگر تمہیں شک ہے دوبارہ جی اٹھنے میں تو بے شک ہم نے تم سب کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پیدا کیا۔
اور سورۃ کھف میں اللہ کا ایک بندہ اعلان کرتا ہے۔
قَالَ لَهُۥ صَاحِبُهُۥ وَهُوَ يُحَاوِرُهُۥٓ أَكَفَرْتَ بِٱلَّذِى خَلَقَكَ مِن تُرَابٍۢ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍۢ ثُمَّ سَوَّىٰكَ رَجُلًۭا (الکھف:۳۷) اس کے ساتھی نے اس سے بات کرتے ہوئے کہا کیا تو اس کا انکار کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے پھر تجھے ایک آدمی بنایا؟
سورۃنجم میں حقیقت حال یوں بیان فرمائی جارہی ہے۔
هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُم مِّنَ ٱلْأَرْضِ وَإِذْ أَنتُمْ أَجِنَّةٌۭ فِى بُطُونِ أُمَّهَٰتِكُمْ ۖ (النجم:۳۲) وہ تمہیں جانتا تھا جب اس نے نکالا تمہیں زمین میں سے اور جب تم پوشیدہ تھے اپنی ماؤں کے پیٹوں میں۔
ان آیات مبارکہ کے مطالعہ سے دو باتیں بالکل واضح ہوجاتی ہیں۔
1۔ ہم سب کو اللہ نے اولین مٹی سے تخلیق کیا۔
2۔ ہماری مٹی کی اس تخلیق کے بعد ہماری یہ دنیوی تخلیق کی گئی جس میں ہم نطفہ سے پیدا کئے گئے ہیں۔
یہاں یہ سوال آن پیدا ہوتا ہے کہ ہماری تخلیق اولٰی اگر مٹی سے تھی تو اس کی ہیئت کیا تھی؟ کب اور کس طرح اللہ نے ہمیں تخلیق کیا؟ یہ تمام عمل کہاں ہوا؟ اس کے مدارج کیا تھے؟ اس کا آغاز کب ہوا اور کب یہ عمل اپنے اختتام کو پہنچا؟ اس باب میں ہمیں قرآن پاک سے رہنمائی ملتی ہے جس کا ہم اب جائزہ لیتے ہیں۔ سب سے پہلے آئیے سورۃ اعراف کی طرف توجہ کریں جس میں فرمایا جارہا ہے۔
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنۢ بَنِىٓ ءَادَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ (اعراف:۱۷۲) اور جب نکالا تمہارے رب نے آدم کے بیٹوں کی پشتوں میں سے ان کی اولادوں کو۔
یہاں پر یہ حقیقت بالکل واضح کی جارہی ہے کہ اللہ نے آدم ؑ کے بیٹوں کی پُشت میں سے ان کی اولادوں کو نکالا۔ خیال رہے کہ یہاں لفظ "بیٹے” کی تخصیص ہے گویا ہم تمام اپنی تخلیق اولٰی میں صرف اپنے باپوں سے منسلک و منسوب تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس حقیقت کو مزید مبرھن یہ بات کرتی ہے کہ روز قیامت تمام لوگ اپنے باپوں ہی کے نام سے اُٹھائے جائیں گے۔ جو عوام میں غلط طور پر مشہور ہے کہ لوگ روز قیامت اپنی ماؤں کے نام سے اٹھائے جائیں گے وہ ایک ایسی من گھڑت بات ہے جس کا کوئی ثبوت احادیث میں موجود نہیں۔ اس کے سوا بھی قرآن پاک میں بے شمار مقامات پر اولاد کو ان کے باپوں کی پشت میں سے نکالے جانے کا ذکر ہے۔ گویا ہماری تخلیق اولٰی، ہماری تخلیق دنیوی اور ہماری حیات اخروی ان تمام میں واحد رشتہ جس سے ہم منسوب ہوں گے اور پہچانے جائیں گے وہ ہمارے باپوں کا ہے۔ یہاں یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ دین میں اولاد صرف باپ اور دودھیال کی طرف کیوں منسوب کی جاتی ہے اور دنیاوی رشتوں میں سے دین میں صرف باپ کی "تابعداری” کیوں لازم ہے؟
اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ ہماری یہ تخلیق کس طرح ہوئی؟ سورۃ نوح میں ہماری تخلیق کے بارے میں اس طرح کھول کر بیان فرمایا گیا۔
وَٱللَّهُ أَنۢبَتَكُم مِّنَ ٱلْأَرْضِ نَبَاتًۭا ثُمَّ يُعِيدُكُمْ فِيهَا وَيُخْرِجُكُمْ إِخْرَاجًۭا (نوح:۱۷۔۱۸) اور اللہ نے تمہیں اُگایا زمین میں سے جیسے چیزوں کو اُگایا جاتا ہے۔ پھر تمہیں لوٹائے گا اس میں اور تمہیں نکالے گا اس میں سے جیسے نکالا جاتا ہے۔
اس بات کی حقیقت کو اچھی سمجھنے کے لئے ایک حدیث پاک ملاحظہ فرمایئے جس میں اللہ کے پیارے رسولﷺ فرماتے ہیں۔
مَا بَيْنَ النَّفْخَتَيْنِ أَرْبَعُونَ " . قَالُوا يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا قَالَ أَبَيْتُ . قَالُوا أَرْبَعُونَ شَهْرًا قَالَ أَبَيْتُ . قَالُوا أَرْبَعُونَ سَنَةً قَالَ أَبَيْتُ " ثُمَّ يُنْزِلُ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَيَنْبُتُونَ كَمَا يَنْبُتُ الْبَقْلُ " (متفق علیہ) دونوں نفخوں (یعنی روز قیامت سے یوم حشر کے درمیان) چالیس ہیں۔ ابوہریرہؓ نے عرض کی "چالیس روز؟" فرمایا رسول اللہؐ نے "میں نہیں کہہ سکتا" عرض کی "چالیس ماہ" فرمایا "میں نہیں کہہ سکتا"، عرض کی "چالیس برس" فرمایا "میں نہیں کہہ سکتا" پھر فرمایا "پھر اللہ آسمان سے پانی برسائے گا اور لوگ زمین سے اس طرح اُگیں گے جیسے سبزیاں اُگتی ہیں"
ان دونوں مقامات پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہمیں اللہ نے اولاً ہمارے باپوں کی پُشتوں میں سے زمین سے اس طرح اُگایا جس طرح سبزیاں اُگتی ہیں اور اسی عمل تخلیق کو روز حشر دوبارہ دوہرایا جائے گا جیسا کہ سورۃ انبیاء میں فرمایا گیا ہے
يَوْمَ نَطْوِى ٱلسَّمَآءَ كَطَىِّ ٱلسِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ۚ كَمَا بَدَأْنَآ أَوَّلَ خَلْقٍۢ نُّعِيدُهُۥ ۚ وَعْدًا عَلَيْنَآ ۚ إِنَّا كُنَّا فَٰعِلِينَ (الانبیاء:۱۰۴) جس روز آسمان لپیٹ دئیے جائیں گے جیسے صحیفے لپیٹ دئیے جاتے ہیں۔ جیسے ہم نے پہلے تخلیق کی تھی اسی طرز پر ہم دوبارہ تخلیق کریں گے۔ یہ ہمارا وعدہ ہے اور ہم ایسا کرکے رہیں گے۔
اس آیہ مبارکہ میں واضح طور پر "پہلی تخلیق” کا ذکر ہے۔ صحیین اور ترمذی سمیت احادیث کی متعدد کتب میں اس آیت مبارکہ کی تشریح میں یہ حدیث موجود ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ روز قیامت لوگ برہنہ بدن و برہنہ پا اور غیر مختون اٹھائے جائیں گے جیسا کہ انہیں بنایا گیا تھا۔ یہاں پر بنایا گیا سے ہم مراد ہماری تخلیق اولٰی لیں گے اور ایسا کیوں ہے اس کے لئے آپ کو تھوڑا سا انتظار کرنا پڑے گا۔
یوم حشر ہماری تخلیق کے ساتھ ہماری تخلیق اولٰی کی مناسبت اور مطابقت کے لئے آپ مندرجہ ذیل مقامات کو دوبارہ یاد کیجئے۔
وَعُرِضُوا۟ عَلَىٰ رَبِّكَ صَفًّۭا لَّقَدْ جِئْتُمُونَا كَمَا خَلَقْنَٰكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍۭ ۚ بَلْ زَعَمْتُمْ أَلَّن نَّجْعَلَ لَكُم مَّوْعِدًۭا (الکھف:۴۸) اور تم سب پیش کئے جاؤگے اپنے رب کے حضور گروہ در گروہ (تو کہا جائے گا) آگئے نا ہمارے حضور ایسے ہی جیسے ہم نے تمہیں پہلے بار تخلیق کیا تھا؟ لیکن تم اس گمان میں تھے کہ تمہارے واپس آنے کا کوئی دن ہی مقرر نہیں۔
کتنے واضح الفاظ میں جتلایا جارہا ہے کہ دیکھو ہم نے دوبارہ تمہیں اسی طرح بنا ڈالا نا جیسے پہلے بنایا تھا۔ تم اپنی دنیوی زندگی کی بھول میں اس زعم میں مبتلا تھے کہ پیدائش کے لئے تو ماں اور باپ دونوں کا ملاپ ضروری ہے اور جب ماں، باپ ہی مٹی میں مل کر مٹی ہوگئے تو ہم تمہیں دوبارہ کیسے بنا پائیں گے؟ یہ تمہاری بھول تھی کہ تم اپنی تخلیق اولٰی کو بھول بیٹھے تھے وگرنہ یہ جانتے کہ ہم تو تمہیں اسی طرح زمین سے دوبار اُگا کر کھڑا کردیں گے جیسے پہلی بار کیا تھا۔ سورۃ کھف ہی کی پہلے بیان کی گئی آیت مبارکہ سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارے حیات اولٰی کا مٹی سے ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ادراک اور یقین ہم سے پہلی امتوں کو بھی تھا۔ اب اس حقیقت کو سامنے رکھ کر آپ قرآن پاک کی ان آیات کا دوبارہ مطالعہ کریں تو اپنے رب کی قدرت پر یقین کو مزید پختہ پائیں گے۔
ٱللَّهُ يَبْدَؤُا۟ ٱلْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُۥ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (الروم:۱۱) اللہ خلق کی ابتداء کرتا ہے، پھر وہی اسے دوہرائے گا اور پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤگے۔
سورۃ قٓ میں فرمایا
أَفَعَيِينَا بِٱلْخَلْقِ ٱلْأَوَّلِ ۚ بَلْ هُمْ فِى لَبْسٍۢ مِّنْ خَلْقٍۢ جَدِيدٍۢ (قۤ:۱۵) کیا پہلی بار کی تخلیق سے ہم عاجز تھے؟ مگر ایک نئی تخلیق کی طرف سے یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے ہیں۔
اب اگر بات کریں ہماری اس تخلیق اولٰی کے مراحل اور مدارج کے متعلق تو اس معاملہ میں رہنمائی ایک دلچسپ طریقہ سےدرج ذیل آیہ مبارکہ کے مطالعہ سے سامنے آتی ہے۔ اللہ تعالٰی سورۃ اعراف میں تخلیق آدم و بنی آدم کے متعلق فرماتا ہے
وَلَقَدْ خَلَقْنَٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَٰٓئِكَةِ ٱسْجُدُوا۟ لِاَدَمَ فَسَجَدُوٓا۟ إِلَّآ إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ ٱلسَّٰجِدِينَ (اعراف:۱۱) اور بے شک ہم نے تمہیں تخلیق کیا، پھر تمہیں ایک صورت میں ڈھالا پھر ہم نے فرمایا فرشتوں سے کہ آدمؑ کو سجدہ کرو پس انہوں نے سجدہ کیا سوا ابلیس کے کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ہوا۔
غور کیجئے کہ اللہ تعالٰی یہاں واضح طور پر فرما رہا ہے کہ ہماری تخلیق اور "تشکیل” اس سے پہلے کی جاچُکی تھی جب ملائکہ کو آدم ؑ کو سجدہ کا حُکم دیا گیا۔ گویا ہم سب اس وقت اپنی اصلی شکل میں موجود تھے جب ملائکہ کو آدمؑ کو سجدہ کا حکم دیا گیا۔ لیکن یہاں یہ بات بھی ثابت شدہ حقیقت کے طور پر بیان کی جارہی ہے کہ سجدہ کا یہ حکم صرف آدمؑ کی ذات کے لئے مخصوص تھا، اولاد آدمؑ اس شرف میں ان کی حصہ دار نہ تھی۔ سو وہ کیا حقیقت تھی کہ ہم سب اس وقت "موجود” تو تھے لیکن مسجود صرف آدمؑ ٹھہرے۔ اس گتھی کو سُلجھانے کے لئے قرآن پاک کے اس مقام کا اعادہ مفید ہوگا جہاں اللہ تعالٰی فرماتا ہے
ۢفَإِذَا سَوَّيْتُهُۥ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِى فَقَعُوا۟ لَهُۥ سَٰجِدِينَ (صۤ۷۲) پس جب میں اسے سنوار لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا۔
سو سجدہ کا حکم اس وقت کے لئے تھا جب اللہ تعالٰی آدمؑ میں اپنی روح پھونک دیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ ہماری تخلیق اولٰی کی تکمیل اس وقت ہوئی جب ہم میں روح پھونک دی گئی اور اس عمل کی ابتداء حضرت آدمؑ کو روح عطا کرنے سے ہوئی جس کے فوراً بعد ملائکہ نے ان کو سجدہ کیا۔ اس وقت اگرچہ ہم سب اپنی مکمل جسمانی شکل و ساخت میں موجود تو تھے لیکن بے روح اور بے جان۔ اب ان تمام آیات اور احادیث کے مطالعہ سے چند باتیں ہمارے سامنے واضح ہوجاتی ہیں۔
1۔ ہماری تخلیق اولیٰ مٹی سے ہوئی اور اس کے لئے ہمیں اپنے باپوں کی پُشت سے پیدا کیا گیا تھا۔
2۔ ہم اپنی اس تخلیق اولٰی میں زمین سے اس طرح اُگے تھے جیسے سبزیاں، ترکاریاں اُگتی ہیں۔
3۔ ہماری تخلیق اولٰی کے دو مراحل تھے
ا ۔ پہلاوہ مرحلہ جب ہم سب اپنے باپوں کے پُشت سے زمین سے اُگے، غالباً جیسے گھاس کی ایک ڈنڈی سے بے شمار ڈنڈیاں اُگتی ہیں، اور اللہ تعالٰی نے ہماری صورتیں مکمل فرما لیں۔ ہم اس وقت غیر مختون، برہنہ بدن و برہنہ پا اور بے روح اجسام کی شکل میں تھے۔ یہاں اس امر پر غور کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ غالباً اولاد میں سے اولاد نرینہ پُشت کے زیریں حصہ سے اور بیٹیاں پُشت کے پسلی والے حصے سے پیدا کی گئیں۔ اس کی دلیل وہ متفق علیہ حدیث مبارکہ ہے جس میں نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ” عورتوں کے ساتھ بہتر سلوک سے پیش آؤ کہ عورتیں پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور پسلی کا اوپر کا حصہ سب سے زیادہ ٹیڑھا ہوتا ہے۔ پس اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ ڈالو گے اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑے رکھو گے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی سو عورتوں کے ساتھ حسن سلوک رکھو۔”
ب- ہماری اس تخلیق اولٰی کا دوسرا مرحلہ ہمارے بدنوں کو روح عطا کرنے کا تھا۔ اس کی ابتداء آدمؑ کے بدن میں روح پھونکنے سے ہوئی اور صرف وہی مسجود ملائکہ ٹھہرے۔ آدمؑ کے بعد غالباً اماں حوا کے جسم کو روح عطا کی گئی اور پھر درجہ بدرجہ ان کی اولاد کے اجسام میں ان کی روحیں داخل کی گئیں۔ اس دوسرے مرحلہ کی تکمیل کے بعد ہماری حیات اولٰی کا آغاز ہوا۔
اب اس زندگی میں ہم کہاں تھے؟ کیا کرتے تھے؟ اور کتنا عرصہ تک وہاں رہے؟ کیا اس زندگی کا کوئی ثبوت یا اشارہ قرآن، احادیث اور آج کے سائنسی علوم میں بھی موجود ہے؟ ان تمام معاملات پر بات کریں گے انشاءاللہ اگلی نشست میں۔