گزشتہ نشست کا اختتام اس سوال پر ہوا تھا کہ تقسیم ہندوستان کے وقت ہونے والی قتل و غارت اور انسانی المیہ کی اساس کیا تھی؟ اگر ہمیں صرف مغرب جیسی "جمہوریت” جہاں مذہب ریاست سے الگ ہو ، شتر بے مہار شخصی آزادی ، غیر فطری "مساوات و تعلقات زن و مرد” سمیت ہر معاملہ میں ان کی کلیتا ً تقلیدکرنا تھی تو پھر 1947 کا سوانگ رچانے کی کیا ضرورت تھی؟بالفرض تاج برطانیہ کو اگر ہم سے جان چھڑانی ہی تھی تو ہندو اکثریت کے ملک میں رہنے پر اعتراض کیوں تھا؟ آخر ہزاروں برس سے ہم ان کے ساتھ اکٹھے رہ رہے تھے۔ کیوں ہزاروں ماؤں کے جگر گوشوں کا خون بہایا گیا؟ کیوں ہزاروں کی عصمتیں لٹیں؟ کیوں لاکھوں بے گھر ہوئے؟ کیا یہ سب خون محمد علی جناح کے سر پر ہے کہ جس نے اپنی زندگی کے ختم ہوتے لمحات میں بھی بظاہر صرف اپنی انانیت پرستی کے لئے ایک جھوٹا خواب دکھا کر اتنی بڑی تباہی مچا دی؟
عربی کا مقولہ ہے "کل شئی یرجع الا اصلہ”، ہر شے اپنی اساس کی طرف رجوع کرتی ہے۔ پاکستان کے حالات میں کوئی بھی معنوی بہتری اس اساسی سوال کے دیانتدارانہ جواب کے بغیر ممکن نہیں ۔ اب اس سوال کے صرف دو جواب ممکن ہیں۔
- اول یہ کہ پاکستان کا قیام ایک بے محل اور بے فائدہ تجربہ تھا جس کی نہ کوئی حقیقی دلیل تھی اور نہ منطق۔
- دوم یہ کہ پاکستان کا قیام تو ایک محکم نظریہ اور ضرورت کے تحت ہوا لیکن اس کے بعد ہم راستہ بھٹک گئے۔
اگر ہم اپنے حالات میں صدق دل کے ساتھ کوئی مثبت تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں مکمل دیانتداری کے ساتھ ان دو میں سے ایک صورت کو قبول کرنا ہے اور پھر پورے عزم کے ساتھ اپنے سفر کا نئے سرے سے آغاز کرنا ہے۔ ہر دو صورتوں میں ہمیں بہرحال واپس لوٹنا ہے اپنے نقطہ آغاز کی طرف اور اپنی سمت کو درست کرنا ہے۔
اب اگر آپ کا خیال یہ ہے کہ پاکستان کا تجربہ ایک لاحاصل سعی تھا، ایک جذباتی بے وقوفی تھا، ایک بے بنیاد خیال تھا تو خوش قسمتی سے یہ ایک ایسی غلطی ہے جس کی اب بھی اصلاح کی جاسکتی ہے۔ وہ سرزمین جسے پاکستان کہا جاتا ہے دوبارہ اپنی اصل یعنی ہندوستان کے ساتھ مل سکتی ہے اور اگر ایسا ہو جائے تو وہ تمام رکاوٹیں اور مصائب جو ہمیں آج درپیش ہیں ہمیں ان سب سے چھٹکارا مل جائے گا۔ سب سے بڑی بات کہ تقسیم کے برعکس اس سارے عمل میں کوئی مشقت اور تکلیف بھی نہیں اٹھانی پڑے گی۔ ہمارے ارباب اقتدار کی ممبریاں اور وزارتیں قائم رہیں گی کہ ان کے ووٹ بینک پر اس اغدام سے کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ہماری فوج بآسانی ہندوستانی فوج میں مدغم ہو جائے گی۔ جو یہاں جرنیل ہیں وہاں بھی جرنیل رہیں گے اور جو یہاں صوبیدار ہیں وہ وہاں بھی صوبیدار رہیں گے۔ ہمارے دینی اکابر کے لئے بھی مسئلہ نہیں ہوگا کہ مساجد میں اذانیں ہندوستان میں آج بھی ہوتی ہیں اور کل بھی ہوتی رہیں گی۔ امامت کا پیشہ ان ہی کے سپرد رہے گا جن کے سپرد آج ہے۔ عید شب برات کی چھٹیاں ہندوستان میں پہلے سے ہی ہوتی ہیں سو وہ بھی جاری رہیں گی۔ ہمارے دوکانداروں کی دوکانیں، ہمارے ملازمت پیشہ لوگوں کی ملازمتیں، ہمارے زمینداروں کی زمینداریاں سب جوں کی توں باقی رہیں گی۔ ہمارے روز و شب جیسے آج آٹا دال کی فکر میں گزرتے ہیں ادغام ہندوستان کے بعد بھی اسی طرح گزریں گے ۔ ہمارے رہن سہن، رسوم و رواج اور عادات و اطوار میں پہلے ہی قطعاً کوئی فرق نہیں۔ ہماری شادی بیاہ پر ان کے گانے بجتے اور انہی کی طرز پر لڑکے لڑکیاں محو رقص ہوتے ہیں۔ متحدہ ہندوستان میں ہم اس سے ایک قدم آگے جا کر ہم اپنی دوسرے ہندی ہم وطنوں کی طرح جدید لباس و رواج اپنائیں گے اور زمانے میں معزز قرار پائیں گے۔ آ جا کے بات ایک گائے کے ذبح کرنے پر اٹکے گی تو بھلا ہو جمہوریت کا یہ ایک قانون ہم موجودہ پاکستان کے علاقوں کے لئے منظور کروالیں گے کہ یہاں گائے کے ذبح کی اجازت ہے۔
اب پاکستان کے ہندوستان کے ساتھ ادغام سے جو مالی فوائد ہمیں حاصل ہوں گے وہ بےشمار ہیں۔ ہم ایک دم دنیا کی بڑی معاشی منڈیوں میں شامل ہوجائیں گے۔ ہمارے روپے اور پاسپورٹ کی قدر یکا یک بدل جائے گی۔ مہنگائی کا جن قابو میں آجائے گا۔ ہمارا کوئی دشمن نہیں رہے گا۔ ہم سیاحت اورکاروبار کے لئے موزوں علاقہ قرار پائیں گے۔ یہاں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر کھل جائیں گے جن سے ہمارے لڑکے لڑکیوں کو روزگار کے بے پناہ مواقع مل جائیں گے۔ دریاؤں کے پانی کا مسئلہ اپنا وجود کھو بیٹھے گا تو ہمارا کسان بھی خوشحال ہوگا اور غذا کی قلت کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ چائے جو ہماری بڑی درآمدات میں سے ایک ہے، اس کا ایک اچھا خاصہ حصہ اب اندرونی ذرائع سے حاصل ہوگا اور اس کی قیمت میں بھی کمی آئے گی ۔ اسلام پاکستان میں بھی صرف ایک مذہب اور اس کی مغربی تعریف کی رو سے فرد کا ذاتی معاملہ ہے سو مجوزہ متحدہ ہندوستان میں بھی اسی تعریف کے مطابق فرد کا ذاتی معاملہ ہی رہے گا۔ جس کا جتنا جی چاہے مانا اور جتنا جی چاہا نہ مانا۔ جس نے بہت کیا اس نے اپنا نماز، روزہ کیا اور اللہ اللہ خیر صلا۔ گویا اس سودے میں ہر لحاظ سے فائدہ ہی فائدہ ہے، بالفاظ دیگر وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں
What is there to lose?
اب من حیث القوم اگر ہم پوری نیک نیتی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری اور ہماری آئندہ نسلوں کی بقا اور بہتری اس میں ہے کہ ہم دوبارہ ہندوستان کے ساتھ متحد ہو جائیں تو ہمیں کوئی وقت ضائع کئے بغیر فوراً اس معاملہ میں قومی اتفاق رائے حاصل کرکے ہندوستان کی حکومت سے سلسلہ جنبانی کا آغاز کرنا چاہئے۔ میرا غالب گمان ہے کہ اس معاملہ میں ہندوستان اور پاکستان کی موجودہ قیادت سے بہتر افراد ملنا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہیں جو دونوں ممالک کی اس سمت میں کامیابی کے ساتھ رہنمائی کریں۔ ہمیں وقت کو غنیمت جان کر ان کے ہاتھ مضبوط کرنا چاہئیں اور ہر ممکن کوشش کرنا چاہئے کہ اس وحدت کی تکمیل جلد از جلد ہو۔
سوال صرف یہ ہے کہ کیا آپ پورے خلوص اور صدق دل کے ساتھ اپنی نسلوں کی بھلائی کے لئے معاملات کو اس نہج پر آگے بڑھانے کے لئے راضی ہیں؟ کیا ہمارا مطمع حیات صرف روٹی، بوٹی اور ووہٹی ہے؟ کیا مسلمان ہونے کی جس تہمت کو ہم اٹھائے پھرتے ہیں اس کا ہم سے اور ہماری آنے والی نسلوں سے تقاضا صرف یہ ہے کہ ہم کھائیں، پئیں، افزائش نسل کریں اور مر جائیں؟ اور اگر ایسا ہی ہے تو جب ہمارے نظریہ حیات اور ایک ہندو، سکھ، عیسائی کے نظریہ حیات میں کوئی فرق ہی نہیں تو پھر یہ اسلام اور مسلمانی کا جھنجھٹ کیسا اور کیوں؟ آپ ایک خُدا کو مانتے ہیں، جب اور جیسا آپ ماننا چاہیں ،اور کوئی دوسرا بالکل اسی طرح ہزار خُداؤں کو مانتا ہے لیکن جب آپ کا اور اس کا طرز زندگی، نصب العین ، رہن سہن ہر چیز مشترک ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ کس کے آگے ماتھا ٹیکتے ہیں اور دوسرا کس کے آگے سر بسجود ہے؟ یہ چند سیکنڈ یا منٹ کی مشق جسے آپ نماز کہہ لیں اور آپ کا ساتھی اپنی عبادت کو کسی اور نام سے پکارے بہرحال ایک مشق سے زیادہ اہمیت کی حامل تو نہیں ہے۔ حقیقت میں تو آپ دونوں ایک ہی ہیں اور جب یہی حقیقت ہے تو پھر یہ مسلم و غیر مسلم کا ڈھونگ کیسا اور کیوں؟ ہمیں کیا مجبوری آن پڑی ہے اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کی؟ اقبال تو ہم جیسوں کے لئے بہت پہلے کہہ گئے
زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
تو اس "کچھ بھی نہیں” کے ساتھ چمٹے رہنے کا کیا فائدہ؟ کیوں نہ ادغام ہندوستان کے ساتھ ہی ہم اس تہمت اسلام سے بھی اپنے آپ کو بری الذمہ کریں اور کان نمک میں نمک ہو جائیں؟ ہندو مت کا دل بہت وسیع ہے، وہ دیگر ہزاروں دیوتاؤں کے ساتھ ایک اللہ کی شمولیت پر بھی راضی رہے گا کہ دیگر ہزاروں دیوتا اور دیویاں بھی اسی طرح سناتا دھرم کے اندر گھُسیں اور اسے ہندو دھرم کا نیا نام اور روپ دیا۔ کیا خوب رہے کہ ہمارے گھروں میں قرآن کے ساتھ ساتھ گیتا کی بھی تلاوت ہو، جائے نماز کے بازو میں گنیش جی کا بُت بھی رکھا ہو اور اللہ اکبر کے ساتھ رام نام کی مالا بھی جپی جاتی ہو۔ اکبر نے تو یہ خواب صدیوں پہلے دیکھ رکھا ہے تعبیر اگر ہمارے ہاتھوں ہو جائے تو مضائقہ کیسا؟
بات کو واضح کرنے کے لئے اعادہ کرتے چلتے ہیں کہ بنیادی سوال صرف چند ہیں جن کے جواب پر ہمارے موجودہ اور آئندہ طرز عمل کا انحصار ہے اور ہونا چاہئے۔
- کیا من حیث القوم ہمارا بنیادی نصب العین صرف یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص کے پاس اچھی نوکری، اعلٰی رُتبہ، عالیشان گھر، عمدہ گاڑی اور کبھی نہ ختم ہونے والا بینک بیلنس ہو؟
- کیا ہم یہ مانتے ہیں کہ اسلام صرف ایک مذہب اور اس کی بنیاد پر چند رسومات کا ایک مجموعہ ہے جن پر عمل کرنا یا نہ کرنا فرد کی اپنی صوابدید اور پسند ناپسند پر مبنی ہے؟
- کیا ہم مانتے ہیں کہ مذہب صرف ایک مجموعہ افکار ہے اور اس حیثیت میں اس کا یہ اختیار نہیں کہ انسانوں کو معاشرتی اور معاشی اوامر و نواہی کا پابند کرے؟
- کیا ہم اقرار کرتے ہیں کہ ایک مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان ماسوا چند مذہبی رسومات کے کوئی بھی چیز مختلف نہیں؟
- کیا ہم مانتے ہیں کہ انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے لئے جس طرز زندگی کو جیسے چاہے اختیار کرے اور اس کے حصول کے لئے جیسے چاہے قانون سازی کرے؟
- اور آخر میں یہ کہ کیا یہ وہ اسلام ہے جس کی تعلیم محمد عربی ﷺ نے دی اور جس کے لئے بلال و یاسر رضی اللہ عنہما نے ماریں کھائیں؟ کیا سارا جھگڑا صرف نماز اور زکوٰۃ کا تھا؟
میری آپ سے گزارش صرف اتنی ہے کہ ان سوالوں کو اور اس معاملہ کو سر سری نہ لیں۔ یہ آپ کے وجود اور شعور کی دلیل کا معاملہ ہے۔ ان پر غور کریں اور فیصلہ کریں کہ اس پر آپ کی آنے والی ہر کل کا دارومدار ہے۔ اب اگرپوری دیانتداری سے ان سوالوں کا جواب آپ کے نزدیک "ہاں” ہے تو پھر یقیناً پاکستان ایک دیوانے کا خواب اور احمق کی جنت ہے جس کو جس قدر جلدی ممکن ہو توڑ ڈالنا چاہئے۔ آپ کا یہ اخلاقی اور ملی فرض بنتا ہے کہ اس معاملہ کو نبٹانے کے لئے آواز اٹھائیں اور ان طاقتوں کی مدد کریں جو اس غلطی کی اصلاح میں مدد دے سکتی ہیں۔ اور اگر دور کہیں آپ کے دل کے نہاں خانوں سے ان تمام سوالوں کے جواب میں "نہیں” کی آواز آتی ہے تو پھر ہمارے مسائل کا تریاق کسی اور دوا میں ہے۔