ایک لمبے وقفہ کے بعد دوبارہ ہم سلسلہ کلام کو وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں ہم نے اسے دو ماہ قبل چھوڑا تھا۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ واضح کر دوں کہ جو کچھ میں کہنے جا رہا ہوں اسے آپ فہم قرآن کے عمیق سمندر کے کنارے سےسیپی چُننے کی ایک کوشش کہہ سکتے ہیں۔ یہ صرف ایک کوشش ہے قرآن میں تخلیق انسان کے بیان کو سمجھنے کی اور اسے آپ کے ساتھ بانٹنے کی۔ واللہ اعلم۔
گزشتہ نشست میں ہم نے بات چھیڑی تھی تخلیق انسان کی اور یہ بھی اشارہ دیا تھا کہ ہماری یہ زندگی جو ہم جی رہے ہیں دراصل ہماری دوسری زندگی ہے۔ ایک بھرپور زندگی ہم اس سے پہلے جی آئے ہیں۔ یقیناً یہ دعوٰی دلچسپ بھی ہے اور کچھ نامانوس بھی سو آئیے دیکھیں کہ قرآن میں اس معاملہ میں ہمیں کیا اشارات ملتے ہیں؟ سب سے پہلی بات تو یہ کہ اللہ نے انسان کی تخلیق کو ایک شاہکار بیان فرمایا۔ اس کا اظہار یوں ہوا کہ
لَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَٰنَ فِىٓ أَحْسَنِ تَقْوِيمٍۢ(التّین:۴) بے شک ہم نے انسان کو بہترین اسلوب پر تخلیق فرمایا۔
اب اس تخلیق کے عمل کی ابتداء کے متعلق اللہ تعالٰی قرآن میں بیان فرماتا ہے
إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَٰٓئِكَةِ إِنِّى خَٰلِقٌۢ بَشَرًۭا مِّن طِينٍۢ فَإِذَا سَوَّيْتُهُۥ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِى فَقَعُوا۟ لَهُۥ سَٰجِدِينَ (صۤ:۷۱۔۷۲) جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا میں انسان کو گارے سے بناؤں گا۔ پس جب میں اسے خوب آراستہ کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے سامنے سجدے میں گر پڑنا۔
آدمؑ کی مٹی سے تخلیق کے متعلق قرآن میں اور بھی کئی مقامات پر بیان ہوا۔ اس سلسلہ میں عزیزی فرقان قریشی کی تحقیق بہت عمدہ ہے جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ کس طرح انسان اول کی مٹی سے تخلیق ایک ایسا متفق علیہ مسئلہ ہے جس کی بازگشت اور ثبوت دنیا کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مذاہب اور معاشروں میں تواتر کے ساتھ ملتا ہے۔ اس معاملہ میں مزید معلومات کے لئے ان کی اس ویڈیو کو دیکھنا آپ کی معلومات میں بہت اضافہ کرے گا انشاءاللہ۔
یہاں مزید غور کیجئے کہ فرشتوں کو سجدہ کا حکم تخلیق آدم ؑ سے پہلے دیا جارہا ہے اور اس کا وقت ان میں روح پھونکے جانے کے فوراً بعد کا دیا جارہا ہے۔ یہ سب اس وقت جب ابھی آدمؑ کو علوم دینے کا ذکر تو درکنار ان کے ہوش و حواس بھی زیر تکمیل ہیں۔ گویا آدمؑ مسجود ملائکہ اپنی تخلیق سے پہلے ہی قرار پا چکے تھے اور باقی اگر کچھ رہا تھا تو شیطان لعین کے خبث باطن کا اظہار جو تخلیق آدم کے فوراً بعد ہو گیا۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَٰٓئِكَةِ ٱسْجُدُوا۟ لِاَدَمَ فَسَجَدُوٓا۟ إِلَّآ إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ ٱلسَّٰجِدِينَ (اعراف:۱۱) اور بے شک ہم نے تمہیں تخلیق کیا، پھر تمہیں ایک صورت میں ڈھالا پھر ہم نے فرمایا فرشتوں سے کہ آدمؑ کو سجدہ کرو پس انہوں نے سجدہ کیا سوا ابلیس کے کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ہوا۔
یہاں دو باتیں واضح ہو گئیں کہ اللہ نے اول تخلیق صرف آدمؑ کو کیا اور وہ اکیلے مسجود ملائک ٹھہرے۔ اس شرف ذاتی میں ان کا کوئی شریک نہ تھا۔ اور دوسرا یہ کہ یہ شرف سراسر عطائی تھا۔ آدمؑ کو سجدہ کروانے سے پہلے اللہ نے ان کی کوئی فضیلت اس کے سوا ظاہر نہ فرمائی کہ "میرا حکم ہے سو اسے سجدہ کرو۔”
اب تخلیق آدمؑ کی حد تک تو ہم نے یہ جان لیا کہ یہ کم و بیش ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آدمؑ اکیلے پیدا کئے گئے اور ان کی تخلیق مٹی سے ہوئی۔ بات اب یہاں سے آگے نکلتی ہے آدمؑ کے زوج اور ان کی ذریت کی کہ ان سب کی تخلیق کس طرح ہوئی؟ قرآن میں اس کے متعلق جو رہنمائی ہے اس میں سے کچھ آپ کی نذر کرتا ہوں۔
هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍۢ وَٰحِدَةٍۢ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا ۖ (اعراف:۱۸۹) وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا فرمایا کہ وہ اس سے تسکین حاصل کرے۔
سورہ زمر میں ارشاد ہوتا ہے
خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍۢ وَٰحِدَةٍۢ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا (الزمر:۶) پیدا کیا تمہیں ایک جان سے پھر اس سے نکالا اس کا جوڑا۔
اس آیت کے باقی ٹکڑے کے متعلق انشاء اللہ ابھی کچھ دیر میں بات کریں گے۔
یہاں یہ بات تو واضح ہو گئی کہ اماں حواؑ کو اللہ نے آدمؑ سے ہی پیدا فرمایا لیکن کس طرح؟ انسان کی جس پیدائش سے ہم واقف ہیں اس میں اس بات کی مثال تو موجود ہے کہ کوئی بن باپ کے پیدا ہوگیا لیکن یہ امر محال ہے کہ کوئی بن ماں کے پیدا ہو۔ احادیث سے اس باب میں یہ رہنمائی تو ملتی ہے کہ اماں حوا آدمؑ کی پسلی سے پیدا کی گئی تھیں
اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَىْءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلاَهُ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ، وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ ".(بخاری) عورتوں کے ساتھ بہتر سلوک سے پیش آؤ کہ عورتیں پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور پسلی کا اوپر کا حصہ سب سے زیادہ ٹیڑھا ہوتا ہے۔ پس اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ ڈالو گے اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑے رکھو گے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی سو عورتوں کے ساتھ حسن سلوک رکھو۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حواؑ کو پسلی سے پیدا کیسے کیا گیا؟ اس سوال پر غور کرنے کے لئے اس کے ساتھ ایک سوال اور ملا لیتے ہیں۔ آدمؑ تو مٹی سے پیدا ہوئے، حوا آدم سے پیدا ہوئیں لیکن ہم سب کب اور کیسے پیدا ہوئے؟ آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ یہ زندگی ہماری حیات ثانی ہے۔ اس سے پہلے ہم ایک زندگی گزار آئے ہیں۔ سو یہ سوال آپ کے ذہن میں ضرور پیدا ہوا ہوگا کہ اگر ایک زندگی ہماری اس موجودہ زندگی سے پہلے بھی تھی تو اس کی ابتداء اور نوعیت کیا تھی؟ اب یہیں سے ہماری آج کی نشست کے سب سے دلچسپ مرحلہ کا آغاز ہوتا ہے۔
آئیے قرآن کی کچھ مزید آیات کا مطالعہ کرتے ہیں۔
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِن كُنتُمْ فِى رَيْبٍۢ مِّنَ ٱلْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَٰكُم مِّن تُرَابٍۢ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍۢ (الحج:۵) اے لوگو اگر تمہیں شک ہے دوبارہ جی اٹھنے میں تو بے شک ہم نے تم سب کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پیدا کیا۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَٰنَ مِن سُلَٰلَةٍۢ مِّن طِينٍۢ ثُمَّ جَعَلْنَٰهُ نُطْفَةًۭ فِى قَرَارٍۢ مَّكِينٍۢ (المؤمنون:۱۱-۔۱۲) اور یقیناً ہم نے انسان کو کھنکتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ پھر اسے ایک نطفہ کی شکل میں ایک مخصوص جگہ پر رکھا۔
وَٱللَّهُ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍۢ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍۢ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَٰجًۭا ۚ (فاطر:۱۱) اور اللہ نے تم سب کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے پھر تمہارے جوڑے بنائے۔
هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍۢ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍۢ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ (غافر:۶۷) اس نے تم سب کو پیدا کیا مٹی سے، پھر نطفہ سے پھر ایک لوتھڑے سے
قَالَ لَهُۥ صَاحِبُهُۥ وَهُوَ يُحَاوِرُهُۥٓ أَكَفَرْتَ بِٱلَّذِى خَلَقَكَ مِن تُرَابٍۢ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍۢ ثُمَّ سَوَّىٰكَ رَجُلًۭا (الکھف:۳۷) اس کے ساتھی نے اس سے بات کرتے ہوئے کہا کیا تو اس کا انکار کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے پھر تجھے ایک آدمی بنا یا؟
سورہ زمر کی اس آیت کا حوالہ ہم پہلے بھی پڑھ چکے لیکن یہاں آیت کا مزید ٹکڑا ملاحظہ فرمائیے۔
خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍۢ وَٰحِدَةٍۢ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ ٱلْأَنْعَٰمِ ثَمَٰنِيَةَ أَزْوَٰجٍۢ ۚ يَخْلُقُكُمْ فِى بُطُونِ أُمَّهَٰتِكُمْ خَلْقًۭا مِّنۢ بَعْدِ خَلْقٍۢ فِى ظُلُمَٰتٍۢ ثَلَٰثٍۢ ۚ الزمر:۶) تم سب کو پیدا کیا ایک جان سے پھر اس سے بنایا اس کا جوڑا اور اتارے تم پر آٹھ جوڑے پالتو جانوروں کے۔ تخلیق کیا تم سب کو تمہاری ماؤں کے رحم میں ایک تخلیق کے بعد دوسری تخلیق تین اندھیروں کے اندر۔
کیا آپ کو یہاں ایک ربط نظر آرہا ہے؟ کسی بھی قسم کے شک و شبہ کے بغیر بار بار یہ فرمایا جا رہا ہے کہ صرف آدمؑ ہی نہیں بلکہ تمام بنی نوع آدم کو اللہ نے پہلے مٹی سے پیدا کیا تھا۔ پھر اس کے بعد ایک دوسری تخلیق ہوئی ہماری جس میں اللہ نے ہمیں نطفہ سے پیدا کیا۔ اکثر و بیشتر یہ آیات کفار کے حیات بعد المما ت پر کئے گئے اعتراضات کے جواب میں اتاری گئیں کہ تم کیوں گمان کرتے ہو کہ ہمارے لئے یہ کچھ مشکل ہے؟ ہم تو یہ سب پہلے ہی کرکے دکھا چکے۔ یہی بات قرآن پاک میں اس اندا ز میں بیان ہوئی۔
يَوْمَ نَطْوِى ٱلسَّمَآءَ كَطَىِّ ٱلسِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ۚ كَمَا بَدَأْنَآ أَوَّلَ خَلْقٍۢ نُّعِيدُهُۥ ۚ وَعْدًا عَلَيْنَآ ۚ إِنَّا كُنَّا فَٰعِلِينَ (الانبیاء:۱۰۴) جس روز آسمان لپیٹ دئیے جائیں گے جیسے صحیفے لپیٹ دئیے جاتے ہیں۔ جیسے ہم نے پہلے تخلیق کی تھی اسی طرز پر ہم دوبارہ تخلیق کریں گے۔ یہ ہمارا وعدہ ہے اور ہم ایسا کرکے رہیں گے۔
اس آیت مبارکہ کی تشریح ترمذی کی ایک صحیح حدیث میں بیان ہوئی جہاں رسول اللہﷺ نے بیان فرمایا کہ روز قیامت لوگ برہنہ بدن و برہنہ پا اور غیر مختون اٹھائے جائیں گے جیسا کہ انہیں بنایا گیا تھا۔
پھر ایک اور جگہ فرمایا
ٱللَّهُ يَبْدَؤُا۟ ٱلْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُۥ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (الروم:۱۱) اللہ خلق کی ابتداء کرتا ہے، پھر وہی اسے دوہرائے گا اور پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤگے۔
اسی طرح سورۃ الکھف میں ارشاد ہوا
وَعُرِضُوا۟ عَلَىٰ رَبِّكَ صَفًّۭا لَّقَدْ جِئْتُمُونَا كَمَا خَلَقْنَٰكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍۭ ۚ بَلْ زَعَمْتُمْ أَلَّن نَّجْعَلَ لَكُم مَّوْعِدًۭا (الکھف:۴۸) اور تم سب پیش کئے جاؤگے اپنے رب کے حضور گروہ در گروہ (تو کہا جائے گا) آگئے نا ہمارے حضور ایسے ہی جیسے ہم نے تمہیں پہلے بار تخلیق کیا تھا؟ لیکن تم اس گمان میں تھے کہ تمہارے واپس آنے کا کوئی دن ہی مقرر نہیں۔
سورۃ طٰحہ میں بیان فرمایا جا رہا ہے۔
مِنْهَا خَلَقْنَٰكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ (طٰہ:۵۵) اسی میں سے ہم نے پیدا فرمایا تم سب کو، اور پھر لوٹایا تم سب کو اسی میں اور اسی میں سے ہم نکالیں گے تم سب کو
آپ نے ایک بات نوٹ کی کہ ان آیات میں واضح طور پر فرمایا جا رہا ہے کہ "ہم تمہیں اٹھائیں گے جیسے ہم نے تمہیں پہلے تخلیق کیا تھا”۔ یہ بھی آپ پڑھ آئے کہ قرآن واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ ہم سب کی اولین تخلیق مٹی سے ہوئی تھی اور سورۃ طٰحہ میں تو صریح بیان فرمایا کہ روز قیامت ہم تمہیں زمین میں سے اسی طرح اٹھائیں گے جیسے ہم نے تمہیں اس سے پہلے تخلیق کیا تھا۔ حدیث شریف میں بھی یہ صراحت آئی کہ لوگ روز قیامت اسی طرح اٹھائے جائیں گے جیسا کہ انہیں بنایا گیا تھا۔ یہاں "جیسا انہیں بنایا گیا تھا” کا اطلاق ہماری اس حیات دنیوی کی تخلیق پر نہیں ہو سکتا کہ اس دنیا میں توہم ایک پیچیدہ عمل میں سے گزر کر اپنی موجودہ ہیئت کو پہنچے۔ روز قیامت تو اس میں سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ نہ ماں باپ کا اختلاط، نہ حمل، نہ پیدائش اور نہ بچپن سے جوانی کا سفر۔ اس سب کچھ کی غیر موجودی میں "کما خلقنکم اول مرۃ” کا دعوٰی نامناسب ہوگا کہ بروز قیامت تخلیق کے عمل میں کوئی بھی چیز اس موجود ہ عمل پیدائش و نشونما سے مماثل نہیں ہوگی۔ ایک ایسی تخلیق جو بعینیہ اس طرح ہو جیسا کہ یوم القیامۃ میں ہمیں اٹھایا جائے گا، اسی کو بطور ثبوت پیش کرنا عدل اور دانش کا تقاضا ہوگا۔
اب ان تمام آیات و عوامل کی روشنی میں یہ بات توواضح ہوگئی کہ ہم سب کی تخلیق اولٰی مٹی سے تھی۔ اس بارے میں تو قرآن کی نصوص بالکل واضح ہیں جہاں ہم سب کے متعلق بار بار فرمایا جارہا ہے کہ ہمارے تخلیق مٹی سے کی گئی۔ جیسا میں نے پہلے عرض کیا اس تخلیق اولٰی کے بعد ہماری ایک زندگی تھی جس کے بعد ہمیں موت کی نیند سُلا دیا گیا۔ سورۃ بقرۃ میں اس طرح ارشاد فرمایا گیا
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِٱللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَٰتًۭا فَأَحْيَٰكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (البقرۃ:۲۸) تم کیسے اللّٰہ کا انکار کرتے ہو اور تم مرے ہوئے تھے پھر تمہیں زندگی دی پھر تم مرو گے پھر زندہ کئے جاؤگے پھر تم اس کی طرف لوٹائے جاؤگے؟
اور یہی دُہائی دیں گے اہل جہنم روز قیامت
قَالُوا۟ رَبَّنَآ أَمَتَّنَا ٱثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا ٱثْنَتَيْنِ فَٱعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍۢ مِّن سَبِيلٍۢ (غافر:۱۱) کہیں گے رب ہمارے تونے ہمیں مارا دو دفعہ اور زندہ کیا دو دفعہ سو ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں پھر کیا یہاں سے نکلنے کی کوئی سبیل ہے؟
سو آج کی نشست کی بنیاد پر ہم درج ذیل نکات پر اتفاق کر سکتے ہیں
1۔ بارگاہ الٰہی سے ہمیں عطا ہوئیں دو زندگیاں اور دو موتیں۔
2۔ ہماری حیات اولٰی شروع ہوئی مٹی سے ہماری پیدائش کے بعد۔
3۔ حیات دنیوی جس کی ابتداء نطفہ پدر کے شکم مادر میں قرار پکڑنے سے ہوئی۔
4۔ ان دونوں زندگیوں کے درمیان ایک موت کا وقفہ ہے ۔
5۔اسی طرح ایک اور موت ہماری اس زندگی اور اخروی زندگی کے درمیان حائل ہے جو ابد ہا ابد تک رہے گی۔
اب یہ تمام باتیں یقیناً دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ اجنبی اور انوکھی بھی ہیں۔ فطری طور پر سوال اٹھتا ہے کہ اگر اللہ نے ہمیں پہلے تخلیق کیا تھا تو کیسے اور پھر ہمیں تخلیق کر دیا تو ہم رہے کہاں؟ پھر کب اور کیوں وہاں سے ہمیں نکالا گیا ؟اور سب سے بڑھ کر کیا اس بارے میں قرآن اور حدیث میں کوئی ثبوت ہیں؟ انشاء اللہ ان موضوعات پر بات کریں گے اگلی نشست میں۔