گزشتہ نشست میں ہم نے انسانی تخلیق کے ابتدائی مراحل کی تحقیق و تفتیش کے بارے میں موجود آثار و قرآئن کا ایک اجمالی جائزہ مکمل کر لیا۔ اپنے اس سفر میں ہم اب اس موڑ پر آپہنچے ہیں جب ہم ان تمام آثار و قرآئن کو ایک زمانی ترتیب کے ساتھ مرتب کرکے یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ آخر یہ سب کچھ کب ، کیسے اور کیونکر ہوا؟ انسانی کی تخلیق کے سفر کے آغاز کے بارے میں ہم چند باتیں جانتے ہیں۔
1۔ انسان کی تخلیق اس کائنات کی تخلیق کا آخری مرحلہ تھا۔ اس سے پہلے زمین، اس پر موجود مختلف عوامل و اصول طبعی، آسمان، ستارے، فرشتے، جنات اور حیوانات تخلیق پا چُکے تھے۔ اس بات کی تصدیق کے لئے ہم اس حدیث شریف کی طرف رجوع کرتے ہیں جہاں رسول اللہﷺ نے فرمایا "اللہ نے زمین کو پیدا کیا ہفتہ کے روز، پہاڑوں کو اتوار کے روز، درختوں کو سوموار کے روز، مشقت والی اشیاء کو منگل کے دن، روشنی کو بدھ کے دن اور پھر زمین میں جانداروں کو پھیلا دیا جمعرات کے دن اور آدمؑ کو پیدا کیا جمعہ کے دن عصر اور رات کے درمیان وقت کی آخری ساعت میں پیدا کیا۔”
آدمؑ کے جمعہ کے دن پیدا ہونے کی تصدیق مزید احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ تورات میں آتا ہے اور احادیث نبویﷺ سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے کہ تخلیق آدمؑ سے چالیس برس قبل تخلیق آدمؑ کا پورا واقعہ توریت میں، اور کیونکہ کلام اللہ قدیم ہے اس رو سے دیگر تمام کتب الٰہی میں، لکھا جا چکا تھا۔ اب یہ قصہ شروع کیسے ہوا؟ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ جمعرات کے دن تک یہ زمین، اس پر عامل قوتیں از قسم، ہوا، بادل، پانی وغیرہا، اس پر موجود درخت و حیوانات کی ابتدائی اقسام، ہمارے ارداگرد موجود ستارے اور سیارے معہ ہمارے سورج کے سب ترتیب پا چُکے تھے۔ اس عمل میں اللہ کے ہاں تو صرف چھ روز صرف ہوئے لیکن ہمارے زمینی معیار کے مطابق ارب ہا ارب برس گزر چکے تھے۔ پھر اس سب صناعی کے بعد جمعہ کا دن خاموشی کا گُزرا۔ تمام کائنات ترتیب پا چُکی تھی لیکن ابھی تک اس علیم الخبیر ذات نے اس سب کچھ کے مقصد تخلیق سے کسی کو آگاہ نہیں کیا تھا۔ یہ بات البتہ تمام فرشتوں اور جنوں کو معلوم تھی کہ اس سب کچھ کا مقصد کچھ ایسا ہے جو اس زمین پر ہونا ہے۔
2۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جنت اور دوزخ کی تخلیق بھی اس کائنات کی تخلیق کی تکمیل تک، یا اس سے پہلے کی جا چُکی تھی۔ تمام مخلوق یہ بھی جانتی تھی کہ جنت ایک انعام ہوگا اور دوزخ ایک سزا لیکن ابھی تک یہ راز نہیں کھُلا تھا کہ کن کے لئے؟ مخلوق میں سے کس کو، اور کیونکر جنت یا دوزخ میں بھیجا جائے گا؟ ہاں یہ بات تمام مخلوق کو معلوم تھی کہ علم الٰہی میں ایک دن مقرر کیا جا چُکا ہے جس روز یہ تمام بساط ہستی لپیٹ دی جائے گی اور پھر ایک دن آئے گا جس روز جزا اور سزا کا فیصلہ کیا جائے گا۔
3۔ عزازیل جو صنف جنات میں سے تھا اپنی سعی مسلسل کی وجہ سے خود کو نیابت الٰہی کے عہدہ کا حقدار سمجھتا تھا۔ اس کی پہنچ نہ صرف ملائکہ تک تھی بلکہ جو حکم ملائکہ کو پہنچتا وہ حکم بعینہ عزازیل تک بھی پہنچتا اور اس معیار سے وہ صف ملائکہ کا ہی ایک فرد سمجھا جاتا تھا۔ بعض تو عزازیل کو ملائکہ کا اُستاد بھی بتاتے ہیں۔
4۔ آسمان اور زمین کی مخلوقات میں یہ سرگوشیاں یا خیال گردش میں تھا کہ اس زمین کی سرداری کا تاج کس کے سر پر سجتا ہے؟ معلوم مخلوقات میں اپنی علمی اور دیگر برتری کی وجہ سے عزازیل کو شائد بہت یقین تھا کہ یہ سرداری اسی کے لئے ہے۔
یہ وہ ماحول تھا جب فرمان الٰہی نازل ہوا
إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً (البقرۃ: 30) میں زمین میں ایک نائب بھیجنے والا ہوں۔
ملائکہ جو جنت اور دوزخ کی تخیلق اور مقصد سے واقف تھے انہوں نے عرض کی "کیا تو اسے بھیجے گا جو زمین میں فساد پھیلائے گا اور اس میں خون بہائے گا؟” اس پر حکم الٰہی نازل ہوا کہ "میں جانتا ہوں جو تُم نہیں جانتے”۔
اب یہاں سے تخلیق آدمؑ کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ اعلان فرما دیا گیا کہ اس زمین کی نیابت کے لئے، اور اس جنت و دوزخ کی حقداری کے لئے ایک نئی مخلوق پیدا کی جائے گی۔ عزازیل کے دل میں شائد اس بات سے گہری چوٹ لگی۔ بہرحال حکم الٰہی کے تحت اس زمین سے ہر قسم کی مٹی حاضر ہوئی جس سے آدمؑ کا بُت تیار کیا گیا۔ قرآن کی متعدد آیات اور احادیث اس حقیقت پر شاہد ہیں۔
إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَٰٓئِكَةِ إِنِّى خَٰلِقٌۢ بَشَرًۭا مِّن طِينٍۢ (صۤ:۷۱) جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا میں انسان کو گارے سے بناؤں گا۔
حدیث شریف میں آتا ہے "بے شک اللہ نے آدمؑ کی تخلیق کی ایک مٹھی پھر مٹی سے جس میں اس زمین کی تمام اقسام کی مٹی شامل تھی پس آدم کی اولاد اس مٹی کی مانند ہے، کچھ سُرخ، کچھ سفید، کچھ سیاہ اور کچھ ملی جُلی اور کچھ نرم اور کُچھ سخت اور کُچھ پاک اور کُچھ خبیث۔
بات یہیں تک ہی نہیں ٹھہری بلکہ اللہ تعالٰی نے اس نئی مخلوق کے شرف کو ظاہر کرنے کے لئے حکم فرما دیا کہ
فَإِذَا سَوَّيْتُهُۥ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِى فَقَعُوا۟ لَهُۥ سَٰجِدِينَ (صۤ:۷۲) پس جب میں اسے خوب آراستہ کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے سامنے سجدے میں گر پڑنا۔
گویا شرفِ آدمؑ و اولادِ آدمؑ کا تعین تخلیق آدمؑ سے پہلے ہی کردیا گیا۔ فرشتوں کی سرشت میں تو حکم عدولی ہے ہی نہیں سو انہوں نے آمنا و صدقنا ہی کہنا تھا، عزازیل البتہ اپنے دل میں کُچھ چھُپائے پھرتا تھا جسے اس نے کسی پر ظاہر نہیں کیا۔
ہمیں حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے آدمؑ کی تخلیق جنت میں کی اور جب اللہ تعالٰی نے آدمؑ کا جسد تیار کر لیا تو اسے کچھ عرصہ کے لئے چھوڑ دیا۔ اس پاک ذات کی حکمتیں وہی جانتا ہے لیکن ان بے پناہ حکمتوں میں سے شائد ایک حکمت یہ بھی تھی کہ عزازیل کے دل کا چھُپایا ہوا روگ ظاہر ہوجائے۔ عزازیل نے آدمؑ کے جسد کے گرد چکر لگایا اور اسے غور سے دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ اس جسد کے اندر خلا ہے۔ اُس نے اس سے یہ اندازہ لگا لیا کہ یہ ایسی مخلوق ہوگی جس کے لئے اپنی خواہشات پر قابو پانا مشکل ہوگا۔ اور شائد یہیں سے عزازیل کے ہاتھ ایک ایسا ہتھیار آگیا جس کی بنا پر اس نے ایک مستحکم دُشمنی کی بُنیاد رکھ دی۔
پھر وہ وقت آگیا جب آدمؑ کے جسد میں روح پھونکی گئی۔ جب یہ ہوا تو فرشتے تو حسب حکم سجدے میں گر پڑے لیکن عزازیل اپنے تکبر میں اکڑا رہا اور اس طرح اس کے دل کا روگ تمام مخلوق پر ظاہر ہوگیا جسے وہ چھُپائے پھرتا تھا۔
فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ (البقرۃ: 34) پس انہوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور وہ تھا ہی کافروں میں سے۔
اس موقع پر خالق کون و مکان اور اس کی متکبر مخلوق کے درمیان جو مکالمہ ہوا اسے ایک جگہ قرآن میں یوں بیان فرمایا گیا ہے
قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلاَّ تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ قَالَ أَنَاْ خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ (اعراف: 12) ہم نے فرمایا "تُجھے کس بات نے سجدہ کرنے سے روکا جب کہ میں نے تجھے حکم دیا تھا؟" اُس نے کہا "میں اس سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے تو نے گارے سے پیدا کیا ہے"۔
اس تکبر اور نافرمانی پر عزازیل پر غضب الٰہی ہوا، وہ ابلیس ہوا اور اس کے لئے حکم ہوا
قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ أَن تَتَكَبَّرَ فِيهَا فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِينَ (اعراف:13) فرمایا "پس تو اُتر جا یہاں سے کہ تُجھے کوئی حق نہیں تھا کہ تو اس مقام پر تکبر کرے۔ پس دفع ہو جا، بے شک تو کم ذاتوں میں سے ہے"
ہم پہلے بیان کر چُکے ہیں کہ تخلیق آدمؑ کے وقت تک دیگر تمام مخلوق کو جنت و دوزخ اور یوم الحشر اور یوم الحساب کے متعلق علم ہو چُکا تھا۔ مزید برآں تخلیق آدمؑ جنت میں ہوئی اور آدمؑ کے مسجود ملائکہ ہونے کا اور ابلیس کے ملعون ہونے کا تمام معاملہ جنت ہی میں پیش آرہا تھا۔ جنت کیونکہ صرف اللہ کے عاجز بندوں کے لئے خاص ہے اسی لئے ابلیس کو حُکم ہوا کہ وہ جنت سے دفع ہو جائے کہ اس میں کسی متکبر اور نافرمان کا کوئی کام نہیں۔ اب ابلیس کو جب شیطان یعنی سرکش قرار دے کر اعلیٰ مقام و مراتب سے اُتر جانے کا حُکم ہوا تو اس نے اس علم کے مطابق اور جو اندازہ اس نے آدمؑ کی سرشت کی متعلق لگایا تھا، اُس کا سامنے رکھتے ہوئے بجائے معافی مانگنے کے اللہ تعالٰی کے ہاں ایک ایسی درخواست کی جس نے اُس کی سرکشی کو مزید بڑھایا۔ اُس نے کہا
قَالَ أَنظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَآئِلِهِمْ وَلاَ تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ (اعراف: 16 – 18) اُس نے کہا، "مجھے مہلت دے اس روز تک جب سب دوبارہ اُٹھائے جائیں گے"۔ اُس نے کہا "کیونکہ تو نے مجھے گمراہوں میں سے کر دیا ہے سو میں بھی ان کے لئے تیرے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا (کہ ان کو گمراہ کروں)۔ پھر میں ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے ان کے پاس آؤں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شُکر گزار نہ پائے گا۔
یہاں کُچھ باتیں غور طلب ہیں۔
1۔ ابلیس کےلئے جنت، دوزخ، فرشتے ، ساتوں آسمان اور ان پر موجود مخلوق اور اللہ تعالٰی کی قُدرت یہ سب چیزیں غیب نہیں ہیں بلکہ وہ ان سب کا مشاہدہ کرچُکا تھا۔ ایک دو نہیں اربوں کھربوں برس تک اس کے باوجود وہ اللہ تعالٰی کے حُکم سے سرکشی کا مرتکب ہوا۔ اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ کسی چیز کا دیکھنا یا اُس کا تجربہ کرنا اس پر حقیقی ایمان لانے کے لئے کافی نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو ابلیس جو کہ جانتا تھا کہ حکم عدولی کی سزا جہنم ہے وہ کبھی بھی اللہ کی حکم عدولی نہیں کرتا۔
2۔ ابلیس کا تکبر بظاہر تو آدمؑ کے خلاف تھا لیکن اصل میں اس نے ذات باری تعالٰی پر تکبر کیا۔ اس کے اس قول میں کہ "تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور آدمؑ کو گارے سے” اللہ تعالٰی کے علم اور حکمت پر اعتراض ہے کہ اللہ کو نعوذ باللہ اپنی ہی تخلیق کردہ مخلوقات کے مراتب و فضائل کا علم نہیں۔ بات صرف ابلیس ہی کی نہیں، اللہ کی مخلوق میں سے جو کوئی بھی اللہ کے حکم کے دانستہ خلاف کرتا ہے اپنی کسی منفعت کے لئے وہ اللہ کے علیم الحکیم ہونے کی بالفعل اور ببانگ دُہل نفی کرتا ہے۔ اللہ ہم سب کو شیطان مردود کے نقش قدم پر چلنے سے بچائے آمین۔
3۔ ابلیس نے آدمؑ اور بنی آدم کی ازلی کمزوری کو تو جان لیا کہ یہ مخلوق اپنی خواہشات پر قابو پانے میں دُشواری محسوس کرے گی لیکن خود اپنی خواہشات کا شکار ہوکر سب سے بڑی نافرمانی کر بیٹھا۔ اس کے علم نے اسے کُچھ فائدہ نہ دیا۔ وہ بزعم خود آدمؑ بین تو بن گیا، خود بین نہ بن سکا اور اس تیر کو جو اُس نے آدمؑ اور بنو آدمؑ کے لئے تیار کیا تھا، سب سے پہلے اپنی ہی حلق پر چلا دیا۔ یقیناً بصیرت والوں کے لئے اس قصہ میں بہت نشانیاں ہیں۔
ابلیس کی اس گستاخی بھری گزارش کے جواب میں حکم الٰہی ہوا
قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مَذْؤُومًا مَّدْحُورًا لَّمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَأَمْلأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكُمْ أَجْمَعِينَ (اعراف: 19) فرمایا "دفع ہو جا یہاں سے ذلیل و مردود ہو کر۔ ان میں سے جو بھی تیری پیروی کریں گے میں تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا"۔
سو تخلیق آدمؑ کی ابتداء ہی سے چند باتیں تمام مخلوق پر واضح ہوگئیں
1۔ آدمؑ کی تخلیق زمین پر اللہ کی نیابت کے لئے ہے۔
2۔ آدمؑ اور اولاد آدمؑ جنت میں اور جنت کے لئے بنے ہیں۔
3۔ شیطان نے اپنے تکبر کی وجہ سے ازخود آدمؑ اور اُن کی اولاد سے دُشمنی گانٹھ لی جس کی ابتداء تخلیق آدمؑ ہی سے شروع ہو گئی۔ اس کا سبب اس کا ذاتی تکبر اور اس فضل پر اُس کا حسد تھا جو اللہ تعالیٰ نے آدمؑ پر محض اپنے کرم سے کیا تھا۔
4۔ جب شیطان نے بنو آدمؑ کو گمراہ کرنے کی قسم کھائی تو اللہ تعالٰی نے اس کا رد نہیں کیا کہ بنو آدم میں سے لوگ گمراہ نہیں ہونگے بلکہ یہ واضح کردیا کہ جو کوئی بھی جانتے بوجھتے شیطان کی پیروی کرے گا اُ س کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔
5۔ انسان کا سب سے بڑا دُشمن اُس کی اپنی خواہشات ہیں۔ شیطان نے یہ راز ہماری تخلیق سے پہلے ہی جان لیا تھا اور انہی کے ذریعے وہ ہم پر حملہ آور ہوتا ہے۔
یہاں تک تخلیق آدمؑ کی کہانی کا ایک حصہ مکمل ہوتا ہے۔ تخلیق آدمؑ کے ساتھ ہی مخلوق کے دو گروہ بن گئے۔ ایک گروہ اللہ کے فرمانبرداروں کا جن میں ملائکہ شامل ہیں کہ انہوں نے اپنے خیالات کو حکم الٰہی کے سامنے قربان کردیا اور اُس مخلوق کے سامنے سربسجود ہوگئے جس کی تخلیق کے بارے میں انہیں تحفظات تھے۔ دوسرا گروہ ، جس کی سربراہی ابلیس لعین کے حصہ آئی، وہ ان مخلوقات کا تھا جنہوں نے اللہ کے حکم سے روگردانی کی اور نافرمان بنے۔ آدمؑ اس وقت تک کسی گروہ کا حصہ نہیں تھے۔ نہ انہیں کسی امر کا حُکم دیا گیا تھا اور نہ کسی بات سے منع کیا گیا تھا۔ ان پر اُن کے رب کا فضل تھا ان کے یا اُن کی اولاد کے کسی بھی ذاتی استحقاق کے بغیر۔
ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشآء۔
انشاء اللہ اگلی قسط میں ہم اس قصہ کے بقیہ واقعات کا جائزہ لیں گے۔