مارچ 3, 2024

جو کچھ ہے پردوں میں پنہاں چشم بینا دیکھ لیتی ہے

پچھلی نشست میں ہم نے یہ جائزہ لیا کہ وہ مثالی جگہ کیسی ہوگی جہاں سے ہم انسان اس زمین پر آئے یا بھیجے گئے ہوں گے اور ہم نے ان بنیادی خصوصیات کی فہرست مرتب کی تھی جو کسی جگہ کو ہم انسانوں کا "اصل گھر” کہلانے کے لئے ضروری ہیں۔ آج کی نشست سے ہم یکے بعد دیگرے ان خواص کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ کیا ہمارے علم میں، چاہے وہ الہامی ہو یا کسبی، کوئی ایسی جگہ موجود ہے جس میں یہ تمام خواص پائے جاتے ہوں۔ اگر ہم کسی ایسی جگہ کا تعین کرسکیں تو اس سے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں آسانی ہوگی کہ ہم کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ کیوں آئے ہیں؟ اور کب تک رہیں گے؟ تو آئیے اپنی ہی تلاش کے اس سفر پر آگے بڑھتے ہیں۔

1۔ ہماری فہرست میں سب سے پہلے یہ حقیقت ہے کہ انسانی بقا کے لئے مثالی جگہ ایسی ہے جہاں کا موسم ہمارے لئے ہر وقت موزوں اور مناسب ہو۔ جہاں کا درجہ حرارت ہمیشہ خوشگوار ہو۔ کیونکہ ہماری جلد انتہائی سخت موسم کے لئے ناسازگار ہے سو ہمارے لئے مثالی جگہ وہ ہے جہاں کا موسم ہمہ وقت یکساں رہے۔ اس ماحول میں لباس ہمارے لئے ایک زینت اور آرائش کی چیز ہوگی، ہماری بقا کی ضمانت نہیں۔ وہاں ہمارے لباس کا معیار اس کی نفاست، اس کی خوبصورتی ، اس کی پائیداری اور اس کی ہمارے جسم اور مزاج کے ساتھ مطابقت  ہوگی نہ کہ اس کی موسمی شدت سے بچاؤ کی خصوصیات۔ وہ جگہ، سیارہ، ستارہ یا مقام ایسا ہونا چاہئے  کہ وہاں ہمیں سورج کی تپش  محسوس ہو نہ شدید گرمی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسا بھی ہو کہ وہاں کا موسم ایسا ٹھنڈا بھی نہ ہو کہ ہمیں سردی کا احساس تک بھی ہو۔ اس ماحول کو ہمارے جسم اور ہمارے مزاج کے لئے  بالکل مناسب ہونا چاہئے۔ ایسا کہ ہم جو بھی لباس پہنیں، جہاں بھی جائیں ،بھلے وہ کوئی وقت ہی کیوں نہ ہو ہمیں نہ کبھی سردی سے بچاؤ کے لئے لحاف یا چادر اوڑھنی پڑے اور نہ کبھی گرمی اور لُو سے بچنے کے لئے ٹھنڈی جگہ تلاشنی پڑے یا اپنا لباس تبدیل کرنا پڑے۔ اب وہ کونسی جگہ ہے جہاں یہ خصوصیات پائی جاتی ہیں؟ میں آپ کی توجہ یہاں قرآن کی دو آیات کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔

مُّتَّکِٮِٕیۡنَ فِیۡہَا عَلَی الۡاَرَآئِکِ ۚ لَا یَرَوۡنَ فِیۡہَا شَمۡسًا وَّ لَا زَمۡہَرِیۡرًا۝ وَ دَانِیَۃً عَلَیۡہِمۡ ظِلٰلُہَا وَ ذُلِّلَتۡ قُطُوۡفُہَا تَذۡلِیۡلًا۝   (الدھر: 13 - 14-)

تکئے لگائے اپنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے۔ نہ وہاں سورج دیکھیں گے اور نہ سردی۔ اور اس کے سائے ان پر جُھکے جارہے ہوں گے اور اس کے انگوروں کے خوشے اپنے آپ کو ان کے سامنے جھکائے جاتے ہوں گے۔

آپ نے غور کیا کہ کتنے واضح الفاظ میں بتایا جارہا ہے کہ وہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں نہ سورج نظر آتا ہے اور نہ اس کی تپش۔ موسم ہمہ وقت خوشگوار رہتا ہے۔ نہ  گرمی اور نہ سردی۔ ہر جگہ ہر وقت ایک سایہ  ہوگا اور سایہ بھی ایسا نہیں کہ آپ کو اس کی جانب جانا پڑے گا بلکہ وہ سائے اپنے آپ کو ہماری طرف جھکاتے ہوں گے، یوں جیسے ہمیں اپنی آغوش میں لیتے۔ ہر وقت اس بات کو یقینی بناتے کہ کبھی بھی ہمارے وجود کسی بھی موسمی سختی کا سامنا نہ کریں۔

اب ان الفاظ پر غور کریں جہاں بتایا جا رہا ہے کہ وہاں  ہم سورج کو نہیں دیکھیں گے۔ اس سے آپ چند بنیادی باتیں اخذ کر سکتے ہیں۔ پہلی بات تویہ کہ جب ہم سورج کو  نہیں دیکھیں گے تو جب سورج نظرہی نہیں آئے گا تو اس کی تپش اور اس کی مضر شعائیں بھی ہم تک  نہیں پہنچیں گی۔  دوسری بات یہ کہ وہاں دن اور رات کا فرق شائد اس طرح کا نہ ہو جیسے اس زمین پر ہے  جہاں رات ہوتے ہی تمام معاملات رُک جاتے ہیں۔ اور تیسری بات  یہ کہ جب ہم کبھی سورج کو دیکھیں گے نہیں تو وہاں کا موسم شائد ایسا ہوگا ایسے جیسے ہر وقت بادل چھائے ہوں۔ آپ کو یاد ہے ہم نے کہا تھا کہ انسانوں کی ابر آلود موسم کے ساتھ کچھ عجیب سی وابستگی کچھ اس طرح ہے کہ اکثر لوگ اس موسم میں اُداس ہوجاتے ہیں۔ جیسے ہمیں کچھ یاد آتا ہے۔ ہم رونا چاہتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ وہ کیا ہے جس کو روئیں؟ اب اگر اس حقیقت کو سامنے رکھیں تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ابر آلود موسم  ہمیں اس وقت کی یاد دلاتا ہے جب ہم اپنے "گھر” میں تھے۔ یہ موسم ہمارے تحت الشعور میں اس جگہ کی، اس وقت کی یاد جگا دیتا ہے جب ہم ان فضاؤں میں سانس لیتے تھے، اس جگہ گھومتے پھرتے تھے  جہاں نہ گرمی تھی، نہ سورج کی تپش اور نہ سردی۔ ہمیں لاشعوری طور پر وہ زندگی یاد آتی جو ہم گزار چکے ہیں، جو ہمارے لاشعور میں، ہماری روح میں جذب ہے ۔

2۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے آئیے مزید کھوجیں کہ  اس زندگی میں وہ کیا تھا جس سے جُدائی کی کسک ہمارے لاشعور میں باقی ہے؟ آپ کو یاد ہے کہ ہم نے کہا تھا کہ انسان کے وجود کی ساخت کچھ اس قسم کی ہے کہ معلوم ہوتا ہے ہمیں اس زمین پر چلنے، پھرنے اور بھاگنے دوڑنے کے لئے نہیں بلکہ ایک سمندری حیوان کی طرح لیٹے رہنے اور آرام کرنے کے لئے بنایا گیا ہو۔ ہم نے یہ بھی جانا تھا کہ انسان فطری طور پر کاہل اور آرام پسند ہے۔ ہماری شدید ترین خواہشات میں سے ایک خواہش یہ ہے کہ ہر چیز ہمہ وقت ہماری مرضی اور منشاء کے عین مطابق ہو اور ہمیں اس کے لئے حکم دینے کا تردد بھی نہ کرنا پڑے۔  ابھی جو آیات قرآنی ہم نے پڑھیں ان میں سے پہلی آیت کے پہلے ٹکڑے میں اہل جنت کی یہ خاصیت بیان کی گئی کہ وہ تکیہ لگائے اپنے تختوں پر براجمان ہوں گے۔ آئیے آپ کی توجہ چند اور آیات قرآنی کی طرف دلاؤں جہاں یہی بات بار بار دُہرائی گئی ہے۔

 مُتَّكِئِينَ عَلَى فُرُشٍ بَطَائِنُهَا مِنْ إِسْتَبْرَقٍ وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ۝ (الرحمٰن: 54)
اہلِ جنت ایسے بستروں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے جن کے استر نفِیس اور دبیز ریشم (یعنی اَطلس) کے ہوں گے، اور دونوں جنتوں کے پھل (اُن کے) قریب جھک رہے ہوں گے۔
مُتَّكِـِٔينَ عَلَىٰ رَفْرَفٍ خُضْرٍۢ وَعَبْقَرِىٍّ حِسَانٍۢ۝ (الرحمٰن: 76)
سبز قالینوں پر اور نادر و نفیس بچھونوں پر تکیے لگائے (بیٹھے) ہوں گے
مُتَّكِئِينَ عَلَيْهَا مُتَقَابِلِينَ۝ (الواقعہ:16)
اُن پر تکیے لگائے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔
عَلَى الْأَرَائِكِ يَنظُرُونَ۝ (المطففین:23)
 تختوں پر بیٹھے نظارے کر رہے ہوں گے
فِيهَا سُرُرٌ مَّرْفُوعَةٌ۝ وَأَكْوَابٌ مَّوْضُوعَةٌ۝ وَنَمَارِقُ مَصْفُوفَةٌ۝ وَزَرَابِيُّ مَبْثُوثَةٌ۝ (الغاشیہ: 13 – 16)
اس میں اونچے (بچھے ہوئے) تخت ہوں گے۔  اور جام (بڑے قرینے سے) رکھے ہوئے ہوں گے۔  اور غالیچے اور تکیے قطار در قطار لگے ہوں گے۔   اور نرم و نفیس قالین اور مَسندیں بچھی ہوں گی۔
مُتَّكِئِينَ عَلَى سُرُرٍ مَّصْفُوفَةٍ وَزَوَّجْنَاهُم بِحُورٍ عِينٍ۝ (الطور:20)
وہ صف در صف بچھے ہوئے تختوں پر تکیے لگائے (بیٹھے) ہوں گے، اور ہم گوری رنگت (اور) دلکش آنکھوں والی حوروں کو اُن کی زوجیت میں دے دیں گے
هُمْ وَأَزْوَاجُهُمْ فِي ظِلَالٍ عَلَى الْأَرَائِكِ مُتَّكِؤُونَ۝ (یٰسین:56)
  وہ اور ان کی بیویاں گھنے سایوں میں تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے

آپ نے غور کیا، قرآن میں اکثر مقامات پر جب اہل جنت کی مصروفیات کی متعلق بات کی گئی وہاں اس بات کا التزام سے ذکر کیا گیا کہ وہ اپنے تختوں پر عمدہ تکیوں کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے۔ ایسے جیسے اہل جنت کا زیادہ تر وقت آرام کرتے ہوئے گزرتا ہے اور اس سے انہیں کوئی بیماری لاحق نہیں ہوتی اور نہ وہ اس سے تھک جاتے ہیں۔ یہ ان کا معمول ہے، وہ بنائے ہی آرام کرنے کے لئے گئے ہیں۔ ہر قسم کی مشقت ان سے نہ صرف کوسوں دور ہے بلکہ کسی قسم کی جمسانی یا روحانی مشقت کا کوئی تصور تک بھی ان کی زندگیوں کے قریب تک نہیں پھٹکتا۔

3۔ ہماری اس تحقیقی کے دوران یہ بات بھی ہمارے پیش نظر آئی کہ ہم انسانوں کو فطری طور پر اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ جو میرے پاس ہے وہ ممکن ہے کہ دوسرے کے پاس نہ ہو۔ جسے ہم اس دُنیا میں خودغرضی کا نام دیتے ہیں یہ رویہ اصل میں ہماری فطرت کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ یوں جیسے ہم کسی ایسے ماحول سے آئے ہیں جہاں کسی چیز کی تنگی یا کمیابی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ جہاں یہ بات گمان سے بہت دور تھی کہ کچھ بھی ختم ہو سکتا ہے یا  یہ کہ میرے پاس کچھ بھی ایسا ہے جو میرے ساتھی یا دوست کے پاس نہیں ہوگا۔ شائد ہم ایک ایسی زندگی گزار آئے ہیں جہاں ہم صرف اپنی ذات کے لئے اس وجہ سے سوچتے تھے کہ ہمیں کسی دوسرے کے متعلق سوچنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ ہر چیز ہر وقت ہر ایک کی دسترس میں تھی اور کوئی فرد محض اپنی خواہش سے کسی  چیز کو پسند کرتا تھا۔  اس کے چُناؤ میں اس بات کا قطعاً کوئی عمل نہیں ہوتا تھا کہ یہ کسی دوسرے پاس ہے یا نہیں یا یہ کہ اگر میں نے یہ لے لی تو کوئی دوسرا اس سے محروم ہوجائے گا۔

اسی بات سے جُڑی ایک بات یہ بھی ہم نے جانی کہ ہم انسانوں کو اس زمین کے پھل اور کھانے مرغوب نہیں ہیں۔ ہمیں ان کے قدرتی ذائقے پسند نہیں۔ جو خوراک ہم کھاتے ہیں اس کے لئے بھی ہم سو جتن کرتے ہیں کہ کہیں وہ ہمارے معیار اور مزاج کے مطابق ہو جائے اور اگر ہمیں کوئی چیز پسند آہی جائے تو پھر ہمارا جی چاہتا ہے کہ اسے بس کھائے چلے جائیں۔ اس رویہ کی وجہ سے انسان وہ واحد مخلوق ہے جو بسیار خوری اور موٹاپے کا شکار ہوتی ہے۔ کیا یہ رویئے اس لئے ہمارے وجودکا حصہ ہیں کہ ہم جس زندگی کے عادی تھے وہاں پھل انتہائی لذیذ اور خوشنما ہوتے تھے اور یہی نہیں بلکہ جو بھی خوراک ہم کھاتے تھے وہ غذائیت کے لئے یا پیٹ بھرنے کے لئے نہیں بلکہ   ذائقہ اور دل بھرنے کے لئے کھاتے تھے؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس رویہ کے لئے قرآن میں کیا ہمارے لئے کوئی ہدائت یا رہنمائی موجود ہے؟آئیے چند مزید آیات قرآنی کا مطالعہ کرتے ہیں۔

لَهُمْ فِيهَا فَاكِهَةٌ وَلَهُم مَّا يَدَّعُونَ۝ (یٰسین:57)
 اُن کے لئے اس میں (ہر قسم کا) میوہ ہوگا اور ان کے لئے ہر وہ چیز (میسر) ہوگی جو وہ طلب کریں گے
يَدْعُونَ فِيهَا بِكُلِّ فَاكِهَةٍ آمِنِينَ (الدخان:55)
  وہاں (بیٹھے) اطمینان سے ہر طرح کے پھل اور میوے طلب کرتے ہوں گے
وَأَمْدَدْنَاهُم بِفَاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِّمَّا يَشْتَهُونَ۝ (الطور: 22)
اور ہم انہیں پھل (میوے) اور گوشت، جو وہ چاہیں گے زیادہ سے زیادہ دیتے رہیں گے
وَفَاكِهَةٍ مِّمَّا يَتَخَيَّرُونَ۝ وَلَحْمِ طَيْرٍ مِّمَّا يَشْتَهُونَ۝ (الواقعہ:20 – 21)
اور پھل ان میں سے جو چاہیں۔ اور پرندوں کا گوشت جتنا وہ خواہش کریں۔
فِي سِدْرٍ مَّخْضُودٍ۝ وَطَلْحٍ مَّنضُودٍ۝ (الواقعہ: 28 – 29)
بے کانٹوں کے بیریوں میں۔ اور تہ در تہ کیلوں میں۔
وَفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ۝ لَّا مَقْطُوعَةٍ وَلَا مَمْنُوعَةٍ۝ (الواقعہ: 31 – 32)
اور بے انتہا پھل جو نہ کبھی ختم ہوں  اور نہ کبھی وہ ان سے منع کئے جائیں۔
كُلُوا۟ وَٱشْرَبُوا۟ هَنِيٓـًٔۢا بِمَآ أَسْلَفْتُمْ فِى ٱلْأَيَّامِ ٱلْخَالِيَةِ۝ (الحاقۃ:24)
 (اُن سے کہا جائے گا) خوب لطف اندوزی کے ساتھ کھاؤ اور پیو اُن (اَعمال) کے بدلے جو تم گزشتہ (زندگی کے) اَیام میں آگے بھیج چکے تھے
كُلَّمَا رُزِقُوا۟ مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍۢ رِّزْقًۭا ۙ قَالُوا۟ هَٰذَا ٱلَّذِى رُزِقْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَأُتُوا۟ بِهِۦ مُتَشَٰبِهًۭا  (البقرۃ: 25)
جب انہیں اس کے پھلوں میں سے کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا تو کہیں گے کہ یہ تو ہم پہلے کھا چُکے اور انہیں ملتے جُلتے پھل دیئے جائیں گے۔

یعنی بظاہر دیکھنے میں وہ وہی پھل ہوگا لیکن اس کا ذائقہ اور مزہ بالکل مختلف اور جُدا ہوگا ۔ گویا اس قدر نیرنگی اور تنوع ہوگا کہ انسان کی طبیعت اس سے اُکتائے گی نہیں۔ اور یہ پھل کھانا یا ان کا طلب کرنا بھی کیسا ہوگا؟ یہ نہیں کہ دوکان پر گئے اور وہاں سے چیز خریدی اور پھر اسے استعمال کیا، یا یہ کہ کسی چیز کا آرڈر ہی دیا بلکہ ایک اشارہ ابرو کی بھی ضرورت نہ ہوگی۔درختوں کے خوشے خود بخود ہماری جانب جھُکے جاتے ہوں گے اور اس پر مستزاد یہ کہ  ہمارے اردگرد ہمہ وقت نوجوان، خوبصورت خدمتگار گردش کرتے رہتے ہوں گے جن کا کام ہی یہ ہوگا کہ ہمارے دل کی خواہش کو پورا کریں۔ اس حقیقت کو جاننے کے لئے ان آیات قرآنی پر غور کیجئے۔

وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُونٌ۝ (الطور:24)
  اور نوجوان (خدمت گزار) اُن کے اِردگرد گھومتے ہوں گے، گویا وہ غلاف میں چھپائے ہوئے موتی ہیں
يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُونَ۝ بِأَكْوَابٍ وَأَبَارِيقَ وَكَأْسٍ مِّن مَّعِينٍ۝ (الواقعہ:17- - 18)
 ہمیشہ ایک ہی حال میں رہنے والے نوجوان خدمت گار ان کے اردگرد گھومتے ہوں گے۔   کوزے، آفتابے اور چشموں سے بہتی ہوئی (شفاف) شرابِ (قربت) کے جام لے کر (حاضرِ خدمت رہیں گے)۔
وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُونَ إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنثُورًا۝ (الدھر: 19)
اور ان کے اِرد گرد ایسے نوجوان گھومتے رہیں گے، جو ہمیشہ اسی حال میں رہیں گے، جب آپ انہیں دیکھیں گے تو انہیں بکھرے ہوئے موتی گمان کریں گے۔

اور ان خدمتگاروں کی ڈیوٹی کیا ہوگی؟

وَيُطَافُ عَلَيْهِم بِآنِيَةٍ مِّن فِضَّةٍ وَأَكْوَابٍ كَانَتْ قَوَارِيرَا۝ قَوَارِيرَاْ مِن فِضَّةٍ قَدَّرُوهَا تَقْدِيرًا۝ (الدھر: 15 – 16)
  اور (خُدام) ان کے گرد چاندی کے برتن اور (صاف ستھرے) شیشے کے گلاس لئے پھرتے ہوں گے۔   اور شیشے بھی چاندی کے (بنے) ہوں گے جنہیں انہوں نے (ہر ایک کی طلب کے مطابق) ٹھیک ٹھیک اندازہ سے بھرا ہوگا۔

سو نہ صرف یہ کہ ہمارے اردگرد ہمہ وقت مستعد اور چاق و چوبند خدمتگار ہوں گے بلکہ وہ خدمتگار ہمارے اور ہمارے اہل  مجلس کے مزاج شناس ہوں گے۔ انہیں معلوم ہوگا کہ ہمیں کس وقت کیا چیز، کس حال میں اور کس مقدار میں چاہئے اور وہ اسے بالکل اسی طرح ٹھیک ٹھیک تیار کرکے ہمارے سامنے پیش کریں گے۔ اب جب چیز ہو بھی آپ کی پسند کی، تیار بھی آپ کی مرضی کے مطابق کی گئی ہو تو پھر جی تو چاہتا ہے کہ اس سے بھرپور انصاف کیا جائے اور ہم اسے اس وقت تک کھاتے جائیں جب تک ہمارا جی چاہے۔ نہ ہمارا پیٹ بھرے اور اس کے کھانے سے ہماری صحت اور طبیعت پر کوئی مضر اثر پڑے۔ اس معاملہ کو حل کرنے کے لئے آپ کی توجہ ایک حدیث شریف کی طرف دلاتا ہوں۔ فرمایا اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے کہ

اہل جنت نہ تھوکیں گے، نہ انہیں نہ پیشاب اور پاخانے کی حاجت ہوگی اور نہ ہی ان کی ناک بہے گی۔ جب پوچھا گیا کہ پھر ان کے کھانے اور مشروب کا کیا ہوگا تو فرمایا آپﷺ نے کہ وہ ڈکار لیں گے اور انہیں پسینہ آئے گا اور ان کا پسینہ مُشک کی خوشبو کا ہوگا اور وہ اللہ کی پاکی اس آسانی کے ساتھ ہمہ وقت بیان کریں گے جیسے تم سانس لیتے ہو۔

آج بات تو بہت دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچُکی ہے لیکن وقت کی کمی مانع ہے۔ اعادہ کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ آج کی نشست میں ہم نے یہ جائزہ لیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ جنت ہی وہ جگہ ہے جہاں کا موسم، اس کے پھل، اس کی غذا، اس میں ہمارے رہن سہن کا طریقہ اور اس میں موجود سہولیات اور آسائشیں ہماری طبعی فطرت کے مطابق ہیں؟ ابھی کچھ اور معیارات باقی ہیں جن کی کسوٹی پر ہم نے اس بات کو پرکھنا ہے کہ آیا جنت ہی وہ جگہ ہے جہاں سے ہم اس دُنیا میں بھیجے گئے اور انشاءاللہ اگلی نشست میں اسی بات کو آگے بڑھائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے