اگست 20, 2023

جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر

گزشتہ نشت کا اختتام ان سوالوں پر ہوا تھا:

۔ کیا من حیث القوم ہمارا بنیادی نصب العین   صرف یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص کے پاس  اچھی نوکری،  اعلٰی رُتبہ، عالیشان گھر، عمدہ گاڑی اور کبھی نہ ختم ہونے والا بینک بیلنس ہو؟

2۔ کیا ہم یہ مانتے ہیں کہ اسلام صرف  ایک مذہب اور اس کی بنیاد پر چند رسومات کا ایک مجموعہ ہے جن پر عمل کرنا یا نہ کرنا فرد کی اپنی صوابدید اور پسند ناپسند پر مبنی ہے؟

3۔ کیا ہم مانتے ہیں کہ مذہب صرف ایک مجموعہ افکار ہے اور اس حیثیت میں اس کا یہ اختیار نہیں کہ انسانوں کو معاشرتی اور معاشی اوامر و نواہی کا پابند کرے؟

4۔ کیا ہم اقرار کرتے ہیں کہ  ایک مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان ماسوا چند مذہبی رسومات  کے کوئی بھی چیز مختلف نہیں؟

5۔ کیا ہم مانتے ہیں کہ انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے  لئے جس طرز زندگی کو  جیسے چاہے اختیار کرے اور اس کے حصول کے لئے جیسے  چاہے قانون سازی کرے؟

6۔ اور آخر میں یہ کہ کیا یہ وہ اسلام ہے جس کی تعلیم محمد عربی ﷺ نے دی اور جس کے لئے بلال ؓو یاسر ؓنے ماریں کھائیں؟ کیا سارا جھگڑا صرف نماز اور زکوٰۃ  کا تھا؟

میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ یہ سوال سرسری نہیں ہیں۔ ان میں ہماری زندگی کا تمام ضابطہ چھپا ہوا ہے۔ ہم کون ہیں، کیا ہیں اور کیا بننا چاہتے ہیں، ان تمام بنیادی امور کی بنیاد ان چھ سوالوں کے جواب میں پنہاں ہے سو آگے بڑھنے سے پہلے آئیے کچھ غور ان سوالوں پر کر لیں۔

ان سوالات کا جائزہ لینے کے لئے آئیے ایک مشق کریں تاکہ ہم پوری یکسوئی کے ساتھ ان سوالات سے انصاف کر سکیں۔ سب سے پہلے  ایک گہرا سانس لے کر آپ  اپنے ذہن کو تمام خیالات سے پاک کریں اور پھر صرف پہلے سوال کو پڑھیں۔ سوال کو پڑھنے کے بعد آپ پوری یکسوئی کے ساتھ پندرہ سیکنڈ صرف اس سوال پر غور کریں اور جو بھی جواب اس سوال کا آپ کے ذہن میں ہے اس کے دلائل کا جائزہ لیں۔ جب پوری طرح اپنے جواب کا اطمینان کرلیں پھر ایک گہرا سانس لے کر ذہن کو خالی کریں اور یہی مشق اگلے سوال کے لئے دوہرائیں۔

اب جب آپ ان تمام سوالوں کا جائزہ لے چُکے اور ان کے لئے اپنے جواب مرتب کر چکے تو غالب گمان ہےکہ آپ یہ بات پا چکے ہوں  گے کہ اصل سوال  جوان تمام سوالوں میں پنہاں ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کون ہے اور اس کے ساتھ ہمارا رشتہ کیا ہے؟ دین کا ہماری زندگی میں کیسا اور کتنا دخل ہے اور ہونا چاہئے؟ یہ تمام بحث فی الاصل تو اسی حقیقت کو کھوجنے کی ہے کہ اللہ ہمارا کون ہے اور ہم اُس کے کیا ہیں؟ اسلام، قرآن، نبی، شریعت سب کی بنیاد اللہ کو ماننے یا نہ ماننے پر ہی تو ہے۔ ہم اپنی عبادات و معاملات  میں سے اللہ کو نکال دیں تو اسلام کا دعوٰی بھی نہیں کر سکتے بالکل اسی طرح جیسے کفار مکہ حج بھی کرتے تھے، خیرات بھی کرتے تھے اور اللہ کو بھی مانتے تھے لیکن اس سب کے باوجود مسلمان بالکل نہ تھے۔ سو  ہمارا اللہ کے متعلق کیا یقین اور عقیدہ ہے یہی اس بات کا تعین کرتا ہے کہ ہم کون ہیں اور کیا ہیں؟

اب اللہ کون ہے؟  اس سوال کے دو جواب  بالکل سیدھے صاف ہیں۔ ایک تو یہ کہ اللہ کوئی نہیں اور کچھ نہیں ہے۔  یہ سب ایک خیال اور مفروضہ ہے۔ جسے کوئی آنکھ دیکھ نہ سکے، کوئی کان سُن نہ سکے، کوئی ہاتھ  چھُو نہ سکے اس کے وجود کا اقرار بھلا کیونکر؟ ایک ان سُنی، ان دیکھی حقیقت کا ہونا ممکن ہی کیسے ہے؟ یہ زندگی، یہ موت، یہ خوشی یہ غم یہ سب تو گردش ایام ہے۔ ہم اپنی زندگی جیتے ہیں اور اپنی موت مر جاتے ہیں۔ نہ جینے سے پہلے کچھ اور نہ مرنے کے بعد۔

إِنۡ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا ٱلدُّنۡيَا نَمُوتُ وَنَحۡيَا وَمَا نَحۡنُ بِمَبۡعُوثِينَ۝   المؤمنون:37

سو جب اللہ ہی صرف ایک خیال اور مفروضہ ہے تو اس کے بتائے ہوئے ضوابط و قوانین بھلا کیونکر قابل غور ہوں چہ جائیکہ انہیں قابل عمل مانا جائے؟ اگر آپ کا نکتہ نظر یہ ہے تو پھر آپ کے لئے وہی حل موزوں ہے جس کا جائزہ ہم نے گزشتہ نشست میں لیا تھا۔ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کے مصداق جو ہے یہی ہے اور یہیں ہے سو اس چند روزہ زندگی میں جس قدر ہوسکے آرام اور عیش حاصل کرلیں کہ بعد ازاں تو قصہ مٹی ہی ہو جانا ہے۔

اب اس سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ  اللہ ایک ماورائے خیال و گمان ہستی ہے جس نے ہمیں اور تمام جہان کو پیدا کیا۔ وہ خالق ہے اور اس کے سوا باقی سب مخلوق۔ جو ہے اس کے اذن سے ہے اور جو نہیں ہے وہ بھی اس کے حکم سے۔  اب یہاں تک تو  اس جواب میں بات سیدھی اور صاف ہے لیکن یہاں  پھر ایک سوال  آن کھڑا ہوا۔ اللہ اگر خالق ہے اور ہم سمیت کُل مخلوق کو اس نے پیدا کیا ہے تو پھر یہ خالق اور مخلوق  کا تعلق کیسا ہے؟ اس نے ہمیں اور ہمارے اردگرد اس سب کچھ کو کیوں پیدا کیا؟  کیا یہ سب تخلیق محض ایک  بے مقصد کھیل تماشا ہے؟ ایک دن اللہ کا جی چاہا تو اس نے یہ سب کچھ بنا دیا اور پھر ایک دن جب اس کا جی چاہے گا سب کچھ فنا کردے گا  یا پھر کیا یہ سب ایک عظیم الشان منصوبہ کا حصہ ہے جس میں ہر ایک مخلوق کو اپنا کردار ادا کرنا ہے؟

میری گزارش پھر وہی کہ ایک گہرا سانس لے کر اپنے ذہن کو خالی کیجئے اور اس سوال کا جواب اپنے دل سے پوچھئے۔ ہم انشاءاللہ یہیں سے اپنے گفتگو کو آگے بڑھائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے