اکتوبر 2, 2023

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن

گزشتہ نشت میں ہم نے ایک سوال پوچھا تھا کہ” اللہ کون ہے؟“ اس سوال کا ایک ممکن جواب تو یہ ہے کہ اللہ صرف ایک خیال، ایک وہم ہے۔ ہماری حیات اور موت ایک طبعی عمل ہے۔ نہ ہمارے وجود میں آنے کا انحصار کسی کی تخلیق و منشاء پر ہے اور نہ ہماری موت کسی کے اذن کی محتاج۔ جو ہے یہی زندگی ہے۔ نہ اس سے پہلے کچھ اور نہ اس کے بعد۔ آج کی گفتگو اسی ایک نکتہ کی پڑتال کے لئے ہے۔

اگر ہم یہ مانتے ہیں کہ زندگی جو ہے وہ ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است کی بنیاد پر صرف یہی زندگی ہے جو ہم جی رہے ہیں۔ نہ ہم کہیں سے آئے ہیں، نہ ہمیں کہیں جانا ہے اور نہ ہمیں مرنے کے بعد اٹھایا جانا ہے۔ جتنے مزے اس دنیا میں لے لئے سو لے لئے اور جب مر گئے سو مر گئے، ختم ہو گئے۔ ا ب اگر اس زندگی کی حقیقت یہی ہے تو پھر ہماری زندگی کا اکلوتا مقصد صرف یہی ہوسکتا ہے کہ ہم اس زندگی میں جی بھر کر لطف اٹھائیں۔ جو چاہیں، جب چاہیں، جیسے چاہیں کریں۔ اپنے دل کی ہر خواہش کو پورا کریں جیسے بھی بن پڑےبالکل اس کے مصداق جو کہا کہنے والے نےکہ

بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست

بات دل کو لگتی ہے نا؟ ذرا سوچئے زندگی کس قدر بدل جائے اگر ہم صدق دل کے ساتھ اس نظریہ کو اپنا لیں؟ کتنے جھنجھٹ ہیں جن سے انسان کی جان چھوٹ جائے؟ جب میری زندگی یہی زندگی ہے اور میرے پاس صرف یہی ایک موقع ہے تمام تر لذات سے لطف اندوز ہونے کا تو پھر کیوں نہ میں اپنی تمام تر توانائیاں اس زندگی میں لطف اٹھانے کے لئے صرف کروں؟ یہاں توانائیوں سے میری مراد پڑھنا، لکھنا، کام کرنا نہیں ہے۔ یہ سب تو صرف بہانے ہیں ، زنجیریں ہیں جن میں معاشرہ کے طاقتور طبقات نے انسانوں کو جکڑ رکھا ہے۔ یہاں میری مراد ایک حقیقی آزاد زندگی ہے جو ہر قسم کی حدود و قیود سے آزاد صرف فرد کے اپنے لئے جینے کا نام ہو۔ مجھے پارکنگ میں کھڑی کوئی گاڑی پسند آتی ہے میں کیوں نہ اس گاڑی کو بزور چھین کر اپنی خواہش پوری کروں؟ معاشرہ میں جو مصنوعی طریق رائج ہیں وہ تو کم ہمت لوگوں کے لئے ہیں۔ پڑھو، ڈگری لو، کام کرو، پیسہ کماؤ اور پھر جاکر وہ گاڑی لو جس پر آپ کا د ل ہے۔ کیوں نہ اس کی بجائے کسی دوجے کی گاڑی چھینو اور اپنا دل راضی کرو؟ راہ چلتے کوئی لڑکی پسند آگئی تو کیوں نہ اسے بزور اٹھا کر اپنے ساتھ لے جاؤ اور اپنی غرض جب تک چاہو پوری کرو؟ جب میرے پاس نقد صرف یہ ایک زندگی ہے تو میں کیوں اس زندگی کو ترس ترس کر گزاروں؟ یہ اخلاق، یہ بلند آدرش، ان کا فائدہ کیا ہے؟ میں کیوں اپنی خواہش کا گلا گھونٹ کر کسی دوجے کا بھلا کروں یا اپنی خواہش پر کسی اور کو ترجیح دوں؟ مجھے اس کا کیا فائدہ؟  آپ خود سوچئے یہ کوئی عقل کی بات ہے کہ انسان اپنی زندگی ”اصولوں کی پاسداری اور اوروں کی خدمت“ کرتے ہوئے گزار دے اور مٹی میں مل کر مٹی ہو جائے  ؟ کم ہمت لوگ شائد یہ دلیل دیں کہ جو زندگی اس نہج پر گزاری جائےکہ جو چاہا، جب چاہا، جیسے چاہا حاصل کر لیا تو ایسی زندگی کی مدت بہت کم ہوتی ہے۔ آپ خود بتائیں کہ وہ مختصر زندگی جو انسان اپنی مرضی سے گزار جائے وہ بہتر ہے یا وہ طویل قید جس میں انسان اوروں کے احکام و خواہشات کا غلام ہو؟

اب اگر ہماری زندگی کا واحد مقصد اس زندگی کو بھرپور طریقہ سے جینا ہے تو عزیزان من پھر کسی سے گلہ کیسا اور کیوں؟  جو ان سے بن پڑا انہوں نے چھین لیا، جو آپ چھین سکتے ہیں آپ چھین لیں۔  دیکھیں نا اگر زندگی صرف یہی دنیا کی زندگی ہے تو پھر اس زندگی کو بھرپور طریقہ سے جینے کا صرف ایک ڈھنگ ہےاور وہ یہ کہ آپ طاقت حاصل کریں یا طاقتوروں کے ساتھ شامل ہوجائیں اور خوب کھُل کھیلیں۔ جتنا زندگی میں موقع ملے اس سے لطف اٹھالیں اور پھر یونہی مزے کرتے ایک دن دنیا چھوڑ جائیں۔ نہ آپ کو اولاد کی فکر کرنے کی ضرورت ہے نہ والدین کا غم۔ نہ کوئی رشتہ اہم ہے اور نہ کوئی تعلق۔ آپ کا واحد مقصد اپنے دل کی خواہشات کو پورا کرنا ہے۔ کوئی آپ کی ماں، بہن، بیٹی کے ساتھ زیادتی کر جائے تو آپ کو اس کا غم کرنے کی ضرورت نہیں، آپ صرف اپنے ”شکار“ پر نظر رکھیں۔ ان کی حفاظت کرنے کے چکر میں آپ اپنی زندگی کو مشکل میں بھلا کیونکر ڈالیں؟ آپ کی اولاد رات کو پیٹ بھر کر سوتی ہے یا نہیں آ پ کو اس سے کیا غرض؟ آپ اپنا پیٹ بھریں اور لمبی تان کر سوئیں۔ ان کی زندگی ہوگی تو خود ہی پل جائیں گے اور اگر نہیں ہوگی تو مر جائیں گے۔ آپ کو اس کے متعلق فکر کرنے کی کیا ضرورت؟ سچائی قانون کی پاسداری، صلہ رحمی، نرم دلی، ہمدردی، پیار، اخوت، اوروں کی خدمت کرنا یہ سب باتیں انتہائی بے وقوفی اور حماقت کی ہیں جن کا کوئی ایک بھی عقلی فائدہ نہیں۔ کیا آپ اس بات سے اختلاف کر سکتے ہیں؟

میرے عزیز اگر تو آپ زندگی کو اس نہج پر گزارنا چاہتے ہیں تو پھر آ پ کو یہ سفر مبارک لیکن اگر یہ سب کچھ پڑھتے ہوئے آپ کا سینہ کچھ تنگ ہوا، اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ رشتوں کی پاسداری، حسن خلق، اوروں کی خدمت، وفا، اصول پرستی، سچائی، مظلوم کی داد رسی یہ سب اعمال صالح ہیں جنہیں بجا لانا چاہئے تو آپ کو کوئی وجہ تراشنی ہوگی جس سے یہ تمام اعمال اس فرد کے لئے نفع بخش ہوں جو انہیں بجا لائے کہ اس دنیا کی اگر بات کی جائے تو یہ تمام افعال ماسوا زیاں کے کچھ نقد نہیں دیتے۔ روز کا مشاہد ہ ہے کہ ان گنت لوگ اوروں کے کام آتے آتے اس دنیا سے چلے جاتے ہیں اس حال میں کہ ان کی تمام زندگی مفلوک الحالی میں گزری ہوتی ہے اور کئی ایسے جو اوروں کے خون پر عیش کرتے اس زندگی کو تمام کرتے ہیں۔ اب اگر زندگی صرف یہی زندگی ہے تو اول الذکر بلاشبہ ناکام و نامراد ہوئے اور ثانی الذکر سرخرو اور کامیاب۔ میرا پیٹ خالی ہو، میری زندگی انتہائی تنگی کی ہو لیکن  تمام دنیا میری ستائش کر رہی ہو اس سے کیا یہ بہتر نہیں کہ مجھے ہر آسائش حاصل ہو اور دنیا میں موجود ہر فرد مجھ سے نفرت کرتا ہو؟  کیا زندگی کی حقیقت واقعی یہی ہے اور اگر ہے تو پھر زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ کیا یہی نہیں کہ انسان صرف ایک حیوان کے طور پر زندگی گزارے؟

روز کا مشاہدہ ہے کہ لوگ ماحول کے بچاؤ، غریبوں کے حقوق، انسانیت کے بلند آدرشوں کی تبلیغ کرتے ہیں لیکن یہ مانتے ہیں کہ نہ کوئی خدا ہے نہ مرنے کے بعد جی اٹھنا۔ ان سے سوال صرف یہ ہے کہ اگر واقعی ایسا ہی ہے تو پھر ہم کیوں فکر کریں کہ ہمارے بعد آنے والی نسلوں کو زمین کس حال میں ملے گی؟ ہمارے بعد آنے والوں کو چھوڑیں اس وقت اس دنیا میں ہمارے علاوہ جتنے بھی لوگ  موجود ہیں  وہ جئیں یا مریں، ان کی زندگی اچھی گزرے یا بُری، ہمیں اس سے غرض کیونکر ہو؟ اوروں کے لئے فکر کرنے میں ہمارا بھلا کیا فائدہ ہے؟ اس سوال کا منطقی جواب کیا ہے؟ ایک صاحب عقل اس سوال پر جتنا غور کرے گا وہ یہ مانے بغیر نہیں رہ سکے گا کہ اس زندگی کو پابندیوں سے گزارنے کی صرف ایک ہی تحریک ہو سکتی ہے کہ اس زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہو جہاں پر ان پابندیوں پر عمل کرنے کا صلہ ملے۔ جہاں خود بھوکا رہ کر اوروں کو کھلانے کا مول بےاندازہ و حساب دیا جائے۔ جہاں اس بات کو تولا جائے کہ آپ نے زندگی اپنے لئے گزاری یا اوروں کے لئے اور اول الذکر ناکام ٹھہرائے جائیں جبکہ ثانی الذکر کامیاب۔ جب تک آپ حیات بعد ممات کے تصور کو نہیں مانتے اس وقت تک آپ کسی عمل صالح کی کوئی منطقی دلیل نہیں دے سکتے کہ عمل صالح صرف وہ عمل ہے جو اوروں کی بھلائی کے لئے کیا جائے اور ایسے ہر عمل میں فاعل کا نقصان لازم ہے۔ اب سوچتے سوچتے ہم اگر اس بات پر آگئے کہ اس دنیا میں کئے گئے اعمال صالح کے جواز کے لئے ضروری ہے کہ ایک زندگی ہو اس زندگی کے بعد جہاں ہمیں ہمارے اعمال کا صلہ دیا جائے تو پھر ضروری ہے کہ کوئی ہستی ایسی ہو جو نہ صرف  ہمیں مرنے کے بعد جی اٹھانے پر قادر ہو بلکہ اس بات پر بھی تنہا، ذاتی اور مکمل طور پر قادر ہو کہ ہمارے اعمال کا پورا پورا حساب لگا کر ہمیں ان کا اجر دے۔ اس ہستی کے وجود کے بغیر کسی اعلٰی آدرش، کسی اخلاق، کسی ایثار، کسی اصول کا وجود ہی ممکن نہیں۔ اگر ہم یہ مان گئے ہیں کہ ایک ایسی ہستی موجود ہےتو پھر اگلا سوال یہ ہے کہ اس ہستی سے ہمارے تعلق کی نوعیت کیا ہونا چاہے؟ انشاءاللہ اگلی نشست میں اس سوال پر بحث کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے