مفتی صاحب نے کہیں تقسیم ہندوستان کے وقت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا، "یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان درد زہ سے گزر رہا تھا”۔ اس دور کے شب و روز سے وابستہ کیفیات کو بیان کرنے کے لئے اس سے بہتر استعارہ شائد ممکن ہی نہیں۔ وطن عزیز پاکستان بھی ایک دفعہ پھر اسی طرح درد زہ سے گزر رہا ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قومیں بھی افراد کی طرح اپنی زندگی میں کئی ادوار اور تجربات سے گزرتی ہیں اور افراد کی طرح قوموں کی فلاح اور کامیابی کا دارومدار بھی اس بات پر ہوتا ہے کہ کون اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے اپنے نصب العین کی جانب مستقل مزاجی گامزن رہتا ہے اور کون حالات کی سختیوں اور آزمائشوں سے گھبرا کر آئے روز ایک نیا نصب العین اور نئی جہت ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کامیابی ہمیشہ صرف اول الذکر کے حصہ میں آتی ہے جبکہ ثانی الذکر کی حیثیت اول الذکر کے پاپوش برداروں سے آگے کبھی نہیں بڑھتی۔
بات اگر پاکستان کی کہی جائے تو ہمیں خواہ کتنی ہی ناگوار گزرے حقیقت صرف یہ ہے کہ پاکستان کا وجود ایک نصب العین اور ایک نظریہ کی وجہ سے ہے۔ شہاب صاحب بہت پہلے یہ بات کہہ گئے کہ ہر ملک اپنی جغرافیائی یا لسانی و گروہی بنیاد پر قائم رہ سکتا ہے لیکن پاکستان کا وجود اسلام کے بغیر ممکن نہیں۔ محترم وجاہت سعید خان نے ایک انٹرویو میں سوال کیا کہ "مسجد ملک کے اندر ہے یا ملک مسجد کے اندر؟” معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ بنیادی سوال یہ نہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا مسجد کے بغیر ملک ممکن تھا؟ اس سوال کا دیانتدارانہ جواب صرف ایک ہی ہے کہ اسلام کے بغیر پاکستان کا وجود ممکن نہیں۔ ایک جیتے جاگتے آباد ہندوستان کے وجود سے دو ٹکڑوں کو الگ کر کے انہیں پاکستان کا نام دیا ہی اس لئے گیا تھا کہ مسلمانوں کا اپنا ایک الگ ملک ہو جہاں وہ اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں ۔ اس کے علاوہ ہم قیام پاکستان کی کوئی بھی اساس مقرر کرتے ہیں تو یہ ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ پاکستان ایک ناکام تجربہ ہے جس سے جس قدر جلد ممکن ہو جان چھڑا لینی چاہئے۔ اس کی بیّن دلیل یہی کافی ہے کہ ہندوستان 1947سے لیکر اب تک ہر لحاظ سے پاکستان سے ایک بہتر ملک ہے۔ جمہوریت، فرد کی آزادی، دنیا میں عزت، معاشی استحکام اور تو اور مسلم ممالک سے تعلقات میں بھی ہم اپنے مشرقی ہمسائے سے کوسوں پیچھے ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کسی شمار و قطار میں ہی نہیں۔ ہم شترمرغ کے طرح بھلے ریت میں سر دئیے نفی کی تکرار کرتے رہیں لیکن روز روشن کا انکار نہ سورج کو گہنا سکتا ہے نہ دن کے اجالوں کو رات کی تاریکی میں بدل سکتا ہے۔ قصہ مختصر ہمیں یہ اقرار کرنے میں بھلے شرم آئے لیکن حقیقت صرف یہ ہے کہ ایک اسلامی نظریاتی مملکت کے سوا کوئی وجہ پاکستان کے بقا کی ضمانت تو کجا اس کے وجود کی دلیل ہی نہیں ہو سکتی ۔ اگر تکنیکی زبان میں بات کی جائے تو یوں کہا جائے گا کہ پاکستان کا "یوز کیس” صرف اور صرف یہ تھا کہ
مسلمانوں کا اپنا ایک الگ ملک جہاں وہ اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں
اب ہوا یوں کہ دنیا نے یہ مطالبہ ،یا کہئے کہ یہ یوز کیس مان لیا اور 14 اگست 1947 کو رمضان کے ماہ سعید میں پاکستان کی پیدائش ہوئی۔ ہندوستان جب تخلیق پاکستان کے لئے درد زہ سے گزرا تو خون بھی بہت بہا اور کرب بھی بہت سہا گیا لیکن اس امید پر کہ اس کرب کے بعد آسائش ہے۔ یہ بھروسہ کہ یہ جو نیا آنے والا ہے یہ ہماری پناہ گا ہ بنے گا، ہمارا سہارا ہوگا، ہمارا مان ہوگا۔ کہ اب ایک جگہ ہوگی جہاں قرآن کے آفاقی نظام کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے رکھا جائے گا۔ جہاں مساوات مدینہ ہر روز کا مشاہدہ ہو گا ۔ جہاں ایثار صدیق سانس لیتا ہوگا، جہاں کوچہ و بازار میں عدل فاروقی کا راج ہوگا، جہاں غنائے عثمانی فراواں ہوگا اور جرات حیدری جس کا زمانے میں تعارف ہوگی ۔ یہ تھے وہ خواب جو اُن کروڑوں آنکھوں نے دیکھے تھے جو تقسیم کے وقت اشکبار تھیں۔
ہمارے دیہات میں ایک رواج تھا اور شائد کہیں ا ب بھی ہو کہ جب کسی کے یہاں بیٹا پیدا ہوتا تو ہیجڑے بدھائی دینے اور پیسے لینے آتے۔ وہ پیروں میں گھنگرو باندھے ناچتے اور نومولود کے وارث ان سے خوش ہو کر انہیں پیسے دیتے۔ ان کے اس پروگرام کا آغاز اس فرمائش سے ہوتا کہ نومولود انہیں سونپ دیا جائے۔ یہاں بھی یہ ہوا کہ جب پاکستان پیدا ہوا تو ان ہیجڑوں نے یلغار کر دی جن کا پیشہ کئی پشتوں سے ارباب اقتدار کے سامنے پیروں میں گھنگرو باندھے ناچنا تھا۔ فرمائش یہاں بھی وہ کی گئی کہ نومولود ہمیں سونپ دیا جائے۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ ورثاء اپنی کم ہمتی یا کم عقلی سے ہیجڑوں کے دکھائے ہوئے دلفریب رقص اور خوشنما وعدوں میں الجھ کر رہ گئے اور اپنا مستقبل انہیں سونپ دیا یہ سوچے بغیر کہ جن کا اپنا گزارہ در در ناچ کر ہوتا ہے وہ ایک غیور اور خودمختار وجود کو کیسے پروان چڑھائیں گے؟ پھر وقت گزرتا گیا اور ہیجڑوں کے سائے تلے پلتا یہ وجود کہ جسے اسلام کے آفاقی نظام کی عملی تفسیر بننا تھا، وہ ڈھولک کی تھاپ پر رقص کو اپنی معراج سمجھنے لگا۔ کچھ وقت گزرا تو کاسمیٹک سرجری کے لئے اس کے ایک بازو کو بھی کاٹ دیا گیا کہ جو اس کے گرو تھے انہیں وہ بازو بھدا معلوم ہوتا تھا۔ اس اپاہج وجود نے اپنے تماش بینوں کو رجھانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ کبھی سوشلزم کا غازہ تھوپا، کبھی مجاہد کے دف کی تھاپ پر رقص کیا، کبھی جمہوریت کی گوٹا کناری لگی اترن پہنی، کبھی ترقی پسندی کے نام پر اپنے کپڑے تار تار کئے اور کبھی ان کی خوشنودی کے لئے ان کی جھولی اپنے وجود سے بھر دی۔ اس سب مشقت کے دوران بھی اس نے بہرحال کاسہ گدائی ہاتھ میں تھامے رکھا جس میں وصول ہونے والی بھیک روزانہ کی بنیاد پر اس کے گرو گھنٹال ہتھیا لیتے ۔ اس کی اس شبانہ روز "محنت” سے اس کے گرو امیر سے امیر تر ہوتے گئے اور وہ جو اس کے اصل وارث تھے وہ لاغر اور غریب سے غریب تر ۔ گرو بہرحال یہ مہربانی ضرور کرتے تھے کہ روزانہ اپنی جوٹھن میں سے کچھ روکھے سوکھے ٹکڑے اس کے ورثاء کو بھی ڈال دیتے کہ ان کی زندگی کی ڈور چلتی رہے ۔کماؤ پوت کو قابو رکھنے کے لئے اتنا تو کرنا پڑتا ہے۔
اب یہ سمجھنے کے لئے ارسطو کا دماغ نہیں چاہئے کہ جن کا اکلوتے سہارے کا یہ حشر ہو ان کی جہاں میں نہ کہیں عزت ہوتی ہے اور نہ کبھی ان کے حالات بدلتے ہیں۔ ستم بالائے ستم کہ برسوں کی غلامی کے بعد یہ لوگ اس بات پر محکم ہوگئے کہ زندگی گزارنے کا صرف یہی ایک طریقہ ہے اور اس سے انحراف ناممکن ہی نہیں بلکہ ایک جرم ہے جس کی کم سے کم سزا موت ہے۔ اب بھلا کون ہے جو موت چاہے اس زندگی پر جس میں ہیجڑوں کی جوٹھن ہی سہی شام کو چند ٹکڑے روٹی کے تو مل جاتے ہیں؟ رہی بات غیرت وہ حمیت کی تو جن کے رہنما ہیجڑے ہوں ان کی غیرت و حمیت کا حال بیان کرنے کے لئے کوئی فلسفہ نہیں سیکھنا پڑتا ۔ جس قوم کے شب و روز روٹی کے چند ٹکڑوں کے گرد ” جھپٹنا پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا” کی عملی تصویر ہوں وہ غیرت و حمیت کی عیاشی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اور جب غیرت ہی ناپید ہو تو عزت کیسی کہ عزت وہ نایاب جنس ہے جو خیرات میں اور ڈھولک کی تھاپ پر رقص کرنے سے ہرگز نہیں ملتی۔ اسے حاصل کرنے کے لئے پیٹ کی بجائے دل سے سوچنا پڑتا ہے اور اصولوں پر آسائشوں کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جس نے پاکستان کا آج کا نقشہ مرتب کیا ہے۔ ایک ایسا ملک جس کی نہ کوئی منزل ہے نہ کوئی نصب العین۔ ہاں کتابوں اور کہانیوں کی حد تک ایک بات ضرور کہی جاتی ہے لیکن حقیقت زندگی کے ہر میدان میں ہمارا منہ چڑا رہی ہے۔ دنیا کے ہر فورم پر ہر جگہ اس کی حظ اڑائی جاتی ہے اور دنیا کا شائد کوئی ملک ہو جہاں اس کے پاسپورٹ کے حامل کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو۔ یہ اسلام کا وہ قلعہ ہے جس میں اسلام کو صدر دروازے سے باہر پھینک دیا گیا ہے۔ ہمارا سارا زور اسلام کو اپنانے کی بجائے اسے آباد کرنے میں لگا اور اب جو آباد ہے اس میں اسلام کے سوا باقی سب کچھ موجود ہے۔
وائے حسرت کہ کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
اس ساری کہانی میں اصل سوال جو آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟ وہ ہیجڑے جنہوں نےوہی کیا جو ان کا اور ان کے آباء کا دستور تھا؟ وہ تماش بین کہ جنہوں نے ہیجڑوں کے پالے سپوت کے "فن” کو سراہا، اسے استعمال کیا، اور اسے داد و انعام سے نوازا؟ یا پھر اس کے وہ وارث جنہوں نے اپنا حق بن لڑے بن سمجھے اوروں کی جھولی میں ڈال دیا اور اس کے عوض ملنے والے چند ٹکڑوں پر خوش ہو کر بیٹھ رہے؟ کیا کوئی بھی ذی ہوش فرد اس سب کچھ کی ذمہ داری ان کے سوا کسی اور پر ڈال سکتا ہے جنہوں نے اپنے حق اور اپنی ذمہ داری کو اوروں کے سپرد کردیا اور خود بے نیازی سے ستو پی کر سو رہے؟ اگر ہم نے اقبال کو صرف نعروں اور اقبال ڈے سے بڑھ کر کچھ سمجھا ہوتا تو ان کا یہ کہا ہمارے لئے ضرور مشعل راہ ہوتا کہ
اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف
فِطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملّت کے گُناہوں کو معاف
اجتماعی گناہ اجتماعی کفارہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے لیکن اس سے پہلے احساس گناہ لازم ہے وگرنہ جب تک گناہ پر اصرار کا کُتا کنویں کے اندر ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کتنے ڈول پانی نکالیں ، کنواں بدستور ناپاک ہی رہے گا۔ برسوں پر پھیلی ہماری بے عملی نے یہ بدقسمتی کمائی کہ بجائے گناہ کے احساس و اعتراف کے ہماری تمام تر توانائیاں اس پر مرتکز ہیں کہ ہم گناہ صحیح طور کر نہیں پائے۔ ہمارے دانشور ہمیں روزانہ یہ افیون کھلاتے ہیں کہ اگر ہم رقص کا ایک اور انترا سیکھ لیں، ڈھولک کی تھاپ کو کچھ اور بہتر طریقے سے اپنے پیروں کے تلووں میں قابو کر لیں تو ہمارے تماش بین ہم سے حقیقی معنوں میں خوش ہو کر ہمیں مال و دولت سے اتنا مالا مال کر دیں گے کہ ہم بھی ان کی طرح معزز و غنی ہو جائیں گے۔ ہمیں دن رات یہ سبق پڑھایا جاتا ہے کہ اگر ہم صرف مغرب جیسی "جمہوریت” رائج کر لیں جہاں مذہب اور سیاست دو الگ وجود ہوں ، شتر بے مہار شخصی آزادی کو تھوڑا اور فروغ دے ڈالیں ، غیر فطری "مساوات و تعلقات زن و مرد” اور سب سے بڑھ کر جائز و ناجائز کی مغربی تعریف کو کلیتا ً اپنا لیں تو ہم ترقی بھی کر جائیں گے اور عزت بھی پا جائیں گے۔ جو سوال آج ہم میں سے ہر فرد کو پورے خلوص سے اپنے آپ سے کرنا چاہئے وہ یہ کہ کیا واقعی یہی ہماری منزل ہے؟ اچھی نوکری، اعلٰی رُتبہ، عالیشان گھر، عمدہ گاڑی اور کبھی نہ ختم ہونے والا بینک بیلنس، کیا یہی ہماری زندگی کا جائز مقصد و محور ہونے چاہئیں ؟ اور اگر ایسا ہے تو پھر 1947 کا سوانگ رچانے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر مغرب کے دستور ا ور تہذیب میں ہی فلاح ہے تو ہم نے انگریز سے آزادی کیوں حاصل کی اور اگر انہوں نے ہم سے جان چھڑانی ہی تھی تو ہندو اکثریت کے ملک میں رہنے پر اعتراض کیسا؟ کیوں ہزاروں ماؤں کے جگر گوشوں کا خون بہایا گیا؟ کیوں ہزاروں کی عصمتیں لٹیں؟ کیوں لاکھوں بے گھر ہوئے؟ کیا یہ سب خون محمد علی جناح کے سر پر ہے کہ جس نے اپنی زندگی کے ختم ہوتے لمحات میں بھی بظاہر صرف اپنی انانیت پرستی کے لئے ایک جھوٹا خواب دکھا کر اتنی بڑی تباہی مچا دی؟